پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیتی ہے، بتادیتی ہے کہ فلاں تاریخ کو اسمبلی تحلیل کردی جائے گی تو صاف، شفاف عام انتخابات کے لیے پارٹی کی مشاورت کے بعد ہم حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
اسلا آباد میں الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم فوری الیکشن کا مطالبہ اس لیے کر رہے ہیں کہ کیونکہ اس وقت ملک تعطل کا شکار ہے، ہمارے ملک کی معشیت ایک بحرانی کیفیت میں داخل ہوچکی ہے، اس حکومت کو آئے ہوئے ایک ماہ ہوا ہے اور اس دوران ڈالر کی قیمت میں 7 روپے مزید اضافہ ہو گیا ہے، روپے کی قدر میں مزید کمی ہوگئی ہے جو انتہائی تشویشناک بات ہے۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے ایک ماہ میں اسٹاک مارکیٹ میں مندی ہے، اسٹاک مارکیٹ 3 ہزار پوائٹس سے زیادہ نیچے گر چکی ہے، اس ایک ماہ میں روپے کی قدر گرنے اور ڈالر کے ریٹ بڑھنے سے پاکستان مزید ایک ہزار ارب کا مقروض ہو گیا، پاکستان کے قرض میں مزید اضافہ ہوگیا۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرض کی ادائیگی پر خرچ ہوجا تاہے، یہ پیسا تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، رفاع عامہ اور دیگر فلاحی منصوبوں پر خرچ ہونا چاہیے جبکہ یہ مزید قرضہ پہلے سے حاصل کیے گئے قرض پر عائد سود کی ادائیگی کے لیے حاصل کیا جا رہا ہے۔
‘پنجاب میں آئینی بحران ہے’
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی معاشی صورتحال ہے اور اس صورتحال میں بجلی کے نرخ مزید بڑھادیے گئے، موجودہ وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کرکے آئے ہیں اس کے تحت پیٹرول اور ڈیزل پر سے سبسڈی واپس لینی پڑے گی اور اس سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت پاکستان کے معاشی چیلنج سے عہدہ برآ نہیں ہو رہی، اس حکومت کے پاس ملک کی معیشت ٹھیک کرنے کے لیے کوئی سمت نہیں ہے، ایک مخمصے کی صورتحال ہے، جمود طاری ہے، یہ حکومت فیصلے نہیں کر پا رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ایک آئینی بحران ہے، گورنر کو برطرف کرکے جن کو نامزد کیا گیا وہ حلف لینے سے انکاری ہیں، پنجاب کے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کا کیس زیر سماعت ہے، اگر ہمارے منحرف ایم پی ایز ڈی سیٹ ہوگئے تو کیا وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز اعتماد کا ووٹ لے سکیں گے؟ نہیں لے سکیں گے۔
‘لاکھوں لوگ عمران خان کے جلسوں میں آرہے ہیں’
انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب میں کوئی کابینہ نہیں ہے، اس وقت تک حمزہ شہباز نے جتنے فیصلے کیے ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، اگر پنجاب کی بیورو کریسی ان فیصلوں پر عمل در آمد کر رہی ہےتو وہ آئین و قانون سے تجاوز کر رہی ہے، ان کے اقدامات کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھ چکے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال میں ملک ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے، ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے، دوسری جانب عوام عمران خان کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، عوام لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر میں ہونے والے ان کے جلسوں میں آرہے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام اس حکومت کو تسلیم نہیں کر پا رہے، عوام اس حکومت کو مسترد کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تمام صورتحال میں ملک کی بہتری کے لیے بہتر اور واحد حل فوری عام انتخابات ہیں، اس کے سوا کوئی اور طریقہ دکھائی نہیں دیتا جو تحریک انصاف پیش کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلے بھی انتخابی اصلاحات پر تعاون کیا تھا اور آج بھی انتخابی اصلاحات کے لیے ہم اس حکومت سے تعاون کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیتی ہے، ہمیں واضح طور پر بتادیتی ہے کہ فلاں تاریخ کو اسمبلی تحلیل کردی جائے گی اور فلاں تاریخ کو ملک میں عام انتخابات ہوں گے تو پھر صاف، شفاف عام انتخابات کے لیے پارٹی کی مشاورت کے بعد ہم حکومت سے بات چیت کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
‘حکومت نے بھارت میں ٹریڈ افسر تعینات کردیا’
ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو پانی کے مسئلے پر بھارت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے،انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت چناب پر بننے والے نئے ہائیڈرو پاورمنصوبے کا نقشہ پیش کرنا بھارت کی ذمےداری ہے، وہ ہمارا حق ہے مگر بھارت نہیں دے رہا تو کیا بلاول بھٹو نے اس کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو امریکا جا رہے ہیں تو کیا وہ وہاں ورلڈ بینک کے صدر سے یہ معاملہ اٹھائیں گے جو کہ اس معاہدے کے ضمانت کنندہ ہیں جبکہ آج ملک بھر میں پانی کا سنگین بحران ہے۔
ان کا کہنا تھا موجودہ حکومت نے بھارت میں آج ایک ٹریڈ افسر تعینات کردیا، 5 اگست کے بھارت کے غیر قانونی، غیر آئینی، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بر عکس اقدامات کے بعد ہم نے بھارت سے تجارتی تعلقات ختم کیے، آج بلاول بھٹو کس کے اشارے پر، کس کو خوش کرنے کے لیے ہندوستان کے ساتھ تجارت بحال کر رہےہیں۔
انہوں نے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ کیا بھارت نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی درجہ بحال کردیا، کیا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کردی، اگر نہیں کیا تو آپ کیوں اس کے ساتھ تجارت بحال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک بیان نہیں دیا، انہوں نے بھارت کے خلاف بیان نہیں دیا۔
‘پرامن احتجاج سے روکا گیا تو عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے’
ان کا کہنا تھاکہ بلاول بھٹو نے بیان دیا کہ انہیں ایک حکومتی وزیر نے ملک میں مارشل لا لگنے کی دھمکی دی، آپ کو اس وزیر کا نام بھی بتانا چاہیے تھا، بلاول بھٹو اور ان کے والد ملک میں پیدا شدہ ہیجانی کیفیت کے ذمے دار ہیں، آج ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے مگر بلاول بھٹو خاموش کیوں ہیں، ہماری حکومت میں تو وہ مارچ کر رہے تھے، آج بتائیں کہ کس کے کہنے پر وہ مارچ کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھاکہ پر امن احتجاج اور مارچ کرنا ہمارا حق ہے اور اگر اس کے راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، غیر قانونی حربے استعمال کیے تو پھر ہم عدلیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹائیں گے اور عوام کی کچھری میں بھی جائیں گے۔
‘چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی’
ان کا کہنا تھا کہ آج چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کی اور انہیں پارٹی کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا جو ہمارا فرض تھا اور قانونی پیچیدگیوں کو سمجھنا اور اس سلسلے میں ان سے رہنمائی لینا میرے لیے ضروری تھا۔
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنا ہمارا سیاسی استحقاق ہے، ہم نے کمیشن کے ارکان سے ملاقات کرکے ان کے دیے گئے فیصلے پر عمل در آمد سے متعلق دریافت کیا اور امید ہے کہ وہ اپنے دیے گئے فیصلے پر عمل در امد کرانے میں تعاون کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی نا اہلی سے متعلق ریفرنس کی سماعت ہوئی، ہمارے وکلا نے اس پر اپنا مؤقف پیش کیا جس کے بعد الیکشن کمیشن کا ایک فیصلہ آگیا جس کو دہرانے کی ضروت نہیں، فیصلے پر ہمارا ایک نکتہ نطر ہے اور اس پر ہم آگے اپیل کا حق رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکام کے ساتھ ملاقات میں 2 مزید کیسز پر میں نے ان سے گفتگو کی، جن میں سے ایک کیس یوسف رضا گیلانی والا کیس ہے جس کا فیصلہ کمیشن دے چکا اور ہم نے وہ فیصلہ تسلیم کرلیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیصلے میں الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کو بری الذمہ قرار دیا ہے وہیں کمیشن نے ان کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی کو کرپٹ طرز عمل میں ملوث ہونے کا ذمے دار قرار دیا ہے۔
‘ سوال کرنا حق ہے کہ فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا جارہا’
سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے علی حیدر گیلانی کو مس کنڈکٹ اور کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہونے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر اسلام آباد کو فوجداری مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا، یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے 29 اپریل کو دیا تھا، اسی دن یہ فیصلہ ڈسٹرکٹ الیکنش کمشنر اسلام کو ارسال کردیا جاتا ہے لیکن آج 12 مئی ہے اور اب تک اس فیصلے پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بحیثیت شہری میرا حق بنتا ہے کہ میں سوال کروں کہ یہ الیکشن کمیشن کا اپنا فیصلہ تھا تو اس پر عمل کیوں نہیں کیا جارہا اور اگر ان کا لیگل ڈویژن کوتاہی کر رہا ہے تو اس معاملے پر قانون اور ضابطے کے مطابق عمل کیا جائے۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک منحرف ایم پی اے ہیں کی جن کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا کہ جب وہ الیکشن لڑ رہے تھے اس وقت وہ الیکشن لڑنے کے لیے آئینی شرائط کے مطابق اہل نہیں تھے۔
ان کہنا تھا کہ سلمان نعیم کا کیس الیکشن کمیشن میں چلا، کمیشن نے تمام شواہد کا جائزہ لینے کے بعد پی پی 217 سے ایم پی اے سلمان نعیم کو نااہل قرار قرار دیتے ہوئے ڈی سیٹ کردیا، پھر وہ اپنا کیس لے کر لاہور ہائی کورٹ گئے، ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے ان کا مؤقف مسترد کیا، الیکنش کمینش آف پاکستان کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے بر قرار رکھا۔
‘امید ہے الیکشن کمیشن امتیازی سلوک روا نہیں رکھے گا’
شاہ محود قریشی کا کہنا تھا کہ پھر وہ معاملہ سپیریم کورٹ گیا، سپریم کورٹ نے دیگر کئی کیسز کے ساتھ اس کیس کو ملاتے ہوئے آئین کے سیکشن 9 کی تشریح کی جس میں الیکنشن کمیشن کے اختیارات کی حدود کا تعین کرنا تھا، الیکنشن کمیشن نے اس کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کےدوران میرا سوال یہ تھا کہ کمیشن کی جانب سے وہ اپیل کب دائر کی گئی تھی اور اب اس اپیل کو فالو کیوں نہیں کیا جا رہا، یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اپنی دائر کردہ اپیل کو فالو کریں اور اس اپیل کو فالو نہ کرنے پر میں نے الیکشن کمیشن سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ میں نے تمام قانونی معاملات پر پارٹی کا نکتہ نظر پیش کیا ہے اور اس امید کے ساتھ یہاں سے جا رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمے داریوں کو ادا کر تے ہوئے اپنی طرز عمل سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی غیر جانب داری کا یقین دلائے گا اور باور کرائے کہ تمام سیاسی جماعتوں سے برابر کا سلوک برتا جائے گا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ہمارے فارن فنڈنگ کیس سمیت دیگر کیسز میں امتیازی سلوک روا نہیں رکھے گا، ہم کہتے ہیں قانون کا اطلاق سب پر یکساں طور پر ہونا چاہیے، اس میں کوئی امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک جماعت کے ساتھ رویہ ایک ہو اور دوسری جماعت کے ساتھ رویہ کچھ اور ہو اور میں توقع رکھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن ہمیں مایوس نہیں کرے گا۔