امریکا، پاکستان کے ساتھ تعلقات ترک کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، رپورٹ

امریکی اسکالرز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکا اور پاکستان کو ایک دوسرے کے مفادات کے ساتھ ساتھ باہمی احترام پر مبنی ایسے عملی تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کی ضرورت ہے جس میں زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان اسٹڈی گروپ (پی ایس جی) واشنگٹن سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ایک درجن امریکی اسکالرز کی تیار کردہ یہ رپورٹ پاکستانی سفارتخانے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکی اسکالرز اور تھنک ٹینک کے ماہرین سے ملاقات کے ایک روز قبل جاری کی گئی۔

اس مقالے میں امریکی پالیسی سازوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسے ملک سے تعلقات ترک کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے جس میں تین اہم خطے یعنی جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ شامل ہوں اور جس کی سرحدیں چین اور ایران سے منسلک اور روس کے قریب ہوں۔

رپورٹ کے مصنفین میں جنوبی ایشیا کے لیے سابق امریکی وزیر خارجہ، پاکستان میں دو سابق امریکی سفیر، امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور پاکستان میں کام کرنے والے دیگر سینئر سفارت کار اور جنوبی ایشیا میں ماہر امریکی اسکالرز شامل ہیں۔

اس مقالے کے مطابق امریکا اور پاکستان کے درمیان ایک بہتر، حقیقت پسندانہ تعلقات میں یہ سمجھنا شامل ہوگا کہ پاکستان اور امریکا ’افغانستان کو مختلف نظروں سے دیکھتے رہیں گے لیکن وہاں امن برقرار رکھنے اور اس کے عوام کی تکالیف کو کم کرنے میں تعاون کر سکتے ہیں‘۔

یہ مقالہ امریکی پالیسی سازوں کو یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ’پاکستان میں اشرافیہ اور مقبول دونوں سطحوں پر بھارت کے بارے میں رویے، بہترین طور پر آہستہ آہستہ تبدیل ہوں گے‘۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’امریکا اور پاکستان دونوں میں رائے عامہ دو طرفہ تعلقات میں رکاوٹ کا کام کرتی ہے‘۔

اس نے مزید کہا گیا تاہم امریکا اب بھی پاکستان کو اپنے مجموعی اسٹریٹجک جمع تفریق کو تبدیل کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے، جو کہ اس کے سیکیورٹی ماحول کے بارے میں پاکستان کی سمجھ پر مبنی ہے۔

مقالے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے چین کے بارے میں مختلف خیالات ہیں اور اس میں ’پاکستان کے بارے میں مزید اہم امریکی پالیسی‘ کی سفارش کی گئی ہے۔

مصنفین کا استدلال ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات اس صورت میں فائدہ مند ہوں گے اگر یہ پاکستان کی پالیسیوں، خواہشات اور عالمی نقطہ نظر کے حقیقت پسندانہ جائزے پر مبنی ہوں۔

مصنفین نے متنبہ کیا کہ ’یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ لالچ یا دھمکیوں کے نتیجے میں پاکستان کی اسٹریٹجک سمت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔انہوں نے واشنگٹن کو یاد دلایا کہ ’پاکستان کو تنہا کرنا یا تعلقات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے، لیکن امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعاون کو معمول پر لانا امریکا کے قومی مفاد میں ہے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں