سال 2005 کا تباہ کن زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب، امریکی حکومت ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑی ہے۔رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان 75 سال قبل شروع ہونے والے دوستانہ تعلقات کا نازک سفر مزید مضبوط ہوا ہے کیونکہ پاکستانی قوم کو انفراسٹرکچر اور ترقی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون فراہم کیا جاتا رہا ہے۔یہ بات یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (یو ایس ایڈ) کے ڈائریکٹر فلپ اکیلیئن نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
یو ایس ایڈ گزشتہ 61 سالوں سے حکومت پاکستان کی مدد کر رہی ہے، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور تعلیم اور صحت کی خدمات کو وسعت دینے کے علاوہ کمیونٹی کی لچک میں اضافہ کر رہی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے یو ایس ایڈ شہروں میں رہنے والے لوگوں کو معیاری زندگی کی فراہمی کے لیے کام کرتی ہے کیونکہ ان میں پانی، صفائی ستھرائی اور فضلے کے انتظام کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
یو ایس ایڈ کے ایک اور عہدیدار جلیل الرحمٰن نے کہا کہ امریکا نے زلزلے کے بعد 30کروڑ ڈالر سے زیادہ کا تعاون کیا جس کی بدولت باغ اور مانسہرہ میں 60 اسکول بنائے گئے جہاں طلبہ کی تعداد 30 ہزار سے زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یو ایس ایڈ نے قبائلی اضلاع میں ایک مضبوط انفراسٹرکچر پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 600 کلومیٹر سے زائد طویل سڑکیں اور 35 پل (بشمول دو سرنگیں) تعمیر کیے گئے ہیں اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تین تجارتی راستے تیار کیے گئے ہیں، کچھ منصوبے ابھی تک جاری ہیں اور توقع ہے کہ ایک دو برسوں میں مکمل ہو جائیں گے۔
شاہد محمود نے ان بنیادی ڈھانچے کے پروگراموں کے بارے میں بتایا جو ایجنسی نے تعلیم کے شعبے میں شروع کیے تھے، ان میں زرعی یونیورسٹی (فیصل آباد) میں سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی ان ایگریکلچر اینڈ فوڈ سیکیورٹی کی تعمیر، مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(جامشورو) میں سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی ان واٹر اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(نسٹ) میں سینٹر فار ایڈوانسڈ اسٹڈی ان انرجی اور ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اشتراک سے یو ای ٹی پشاور شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا میں تعمیرنو کا پروگرام بنیادی طور پر تعلیم اور صحت پر مرکوز تھا جس کے تحت دہشت گردی کے واقعات میں تباہ ہونے والے 119 اسکولوں اور 2010 میں سیلاب سے مکمل طور پر تباہ ہونے والے 110 اسکولوں کی مرمت و تعمیر کی گئی، اس کے علاوہ یو ایس ایڈ کی جانب سے صحت کی 49 سہولیات ازسرنو تعمیر کر کے محکمہ صحت کے حوالے کی گئیں۔
انور آفریدی نے کہا کہ 26 کلومیٹر طویل قلات-کوئٹہ-چمن روڈ، چمن بارڈر تک جانے والا ایک اہم تجارتی راستہ ہے جسے ایجنسی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی مدد سے مکمل کرنے میں کامیاب رہی۔
انہوں نے کہا کہ یو ایس ایڈ نے سندھ حکومت کے ساتھ ’سندھ بیسک ایجوکیشن پروگرام‘ نامی ایک اہم تعلیمی منصوبے پر بھی تعاون کیا ہے جس کے تحت صوبے کے 7 شمالی اضلاع اور کراچی کے 5 قصبوں میں 106 اسکول تعمیر کیے جانے تھے، اب تک 83 عمارتیں مکمل ہو چکی ہیں اور باقی کے ستمبر 2023 تک مکمل ہونے کی امید ہے۔
صحت کے شعبے میں فراہم کی جانے والی امداد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یو ایس ایڈ نے پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں برنس اینڈ ٹراما سینٹر کے قیام میں مدد کی، کراچی میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کو حال ہی میں مکمل کیا گیا ہے جس میں 60 بستروں پر مشتمل نفسیاتی علاج کا یونٹ بھی اور 120 بستروں پر مشتمل میٹرنٹی وارڈ شامل ہے، جیکب آباد میں ایک جدید ترین ہسپتال بھی تعمیر کیا گیا تاکہ ناصرف سندھ بلکہ بلوچستان کے لوگوں کو بھی صحت کی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
ایک اور اہلکار عدیل احمد نے بتایا کہ میونسپل سروس پروگرام کے حصے کے طور پر صوبے میں صفائی کی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے 2011 میں حکومت سندھ کے ساتھ شراکت داری پر دستخط کیے گئے تھے۔
لطیف الرحمٰن نے خیبر پختونخوا میں 4کروڑ 30لاکھ ڈالر کی لاگت سے میونسپل سروسز پروگرام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہوا ہے جس کی وجہ سے ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور مینگورہ میں صفائی کا نظام اور پینے کے پانی کے 180 کنویں کام کر رہے ہیں۔