امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کی جانب سے گزشتہ روز جاری ہونے والے اعلامیے کا خیرمقدم کیا ہے جس میں کمیٹی نے عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے ’غیر ملکی سازش‘ کے تاثر کو مسترد کردیا۔
سینئر امریکی عہدیدار نے یہ بیان پریس بریفنگ کے دوران ایک صحافی کے سوال کے جواب میں دیا۔
صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کے نومنتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور اس میں اعلیٰ فوجی اور سول افسران نے شرکت کی، یہ اجلاس عمران خان کے امریکی حکومت پر الزامات کے بارے میں تھا، چنانچہ جو پریس ریلیز ہمیں ملی اس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی، آپ اسے کیسے دیکھتی ہیں؟
جالینا پورٹر نے جواب دیا کہ ’ہم اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی سربراہی وزیر اعظم شہباز شریف کرتے ہیں اور اس میں فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہ بھی شامل ہیں، گزشتہ روز کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے بھی کمیٹی کو اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد سے متعلق آگاہ کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کو اعلیٰ سیکیورٹی ایجنسیوں نے دوبارہ مطلع کیا کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے، اجلاس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔
تاہم نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی جانب سے جاری بیان میں کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں کیے جانے والے فیصلوں کی بھی توثیق کی گئی، مارچ میں کمیٹی نے ایک ملک کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت پر ایک مضبوط ڈیمارچ جاری کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کا اس نے نام نہیں لیا تھا۔
آج ایک پریس بریفنگ میں جالینا پورٹر نے عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان افواہوں میں قطعاً کوئی صداقت نہیں، اس لیے ہم اس بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
سینئر عہدیدار نے مزید کہا ’میں یہ بھی بتانا چاہوں گی کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہمیشہ ایک مضبوط، خوشحال اور جمہوری پاکستان کو امریکی مفادات کے لیے اہم سمجھتا ہے‘۔
اس سے قبل امریکا نے ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار کے اس بیان سے بھی اتفاق کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے ‘کیبل گیٹ’ پر اپنے پہلے بیان میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے بعض سیاسی اعلانات کے برعکس لفظ ’سازش‘ کا استعمال نہیں کیا۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا تھا کہ کیبل پر فوج کا مؤقف ایک انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے مکمل تحقیقات کے بعد وضع کیا گیا ہے۔
کیبل گیٹ
جب سے عمران خان کو اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے معزول کیا ہے اس وقت سے عمران خان شہباز حکومت کو ‘امپورٹیڈ’ قرار دیتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی سازش کا حصہ ہے، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف باضابطہ طور پر تحریک عدم اعتماد دائر کرنے سے ایک دن قبل 7 مارچ کو سفیر سے موصول ہونے والی کیبل اس سازش کا ثبوت ہے۔
یہ مراسلے کا معاملہ پہلی بار عمران خان نے 27 مارچ کو ایک ریلی میں عوامی سطح پر اٹھایا تھا۔
یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
اس کے چند روز بعد 3 اپریل کو عمران خان نے کہا تھا کہ مراسلے میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا امور ڈونلڈ لو کے ساتھ پاکستان کے سفیر کی ملاقات کی تفصیلات موجود ہیں جس میں امریکی عہدیدار نے مبینہ طور پر پاکستان کو دھمکی دی تھی۔
اسد مجید نے مراسلے میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ ڈونلڈ لو نے متنبہ کیا تھا کہ عمران خان کے بطور وزیراعظم برقرار رہنے سے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ امریکا ان کی ‘آزاد خارجہ پالیسی’ اور دورہ ماسکو سے ناراض تھا۔
عمران خان نے گزشتہ روز لاہور میں پارٹی کے جلسہ عام میں پوری قوم سے ’حقیقی‘ آزادی اور جمہوریت کے حصول کے لیے ملک گیر تحریک کے لیے تیار رہنے کی اپیل کی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں صرف پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو کال دے رہا ہوں، آپ سب کو گلیوں، شہروں اور دیہاتوں میں تیاری کرنی ہوگی، آپ کو میری کال کا انتظار کرنا ہوگا جب میں آپ سب کو اسلام آباد بلاؤں گا۔