الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کو ڈی سیٹ کردیا

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین صوبائی اسمبلی کے خلاف ریفرنس منظور کرتے ہوئے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا، تحریک انصاف کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔

منحرف قانون سازوں میں راجا صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگھا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، عبدالعلیم خان، نذیر احمد چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، زوار حسین وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گِل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد علی، اعجاز مسیح، محمد سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم، فیصل حیات شامل ہیں۔

ان میں سے متعدد اراکین کا تعلق جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور اسد کھوکھر گروپ سے ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد منحرف اراکین اسمبلی کے وکیل خالد اسحٰق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے اور قانون کے مطابق 30 دن میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 90 دن میں اپیلوں پر فیصلہ کر سکتی ہے تاہم اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔

الیکشن کمیشن نے نااہلی سے متعلق ریفرنس پر اپنا فیصلہ آج (جمعہ) سہ پہر 3 بجے سنانے کا اعلان کیا تھا۔

ای سی پی نے ایک روز قبل اس کیس میں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔

کمیشن نے 17 مئی کو ریفرنس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اعلان آئندہ روز (بدھ) کو 12 بجے کیا جائے گا تاہم بعد میں اس اعلان کو ملتوی کردیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن کا فیصلہ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اہم ہے جو رواں ہفتے کے اوائل میں آیا تھا۔

آرٹیکل 63 (اے) قانون سازوں کو ‘وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے سلسلے میں، یا اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ، یا منی بل یا آئینی (ترمیمی) بل پر’ پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ دینے (یا پرہیز کرنے) سے روکتا ہے۔

اس آرٹیکل کی تشریح میں عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ پارٹی کی ہدایت کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا اور انہیں نظر انداز کیا جانا چاہیے۔

پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں نے حمزہ شہباز کو اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی، انہوں نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے۔

یوں اگر پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے 25 ووٹ ان کی تعداد سے نکال دیے جائیں تو وہ اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہٰی نے سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو ‘غیر قانونی’ قرار دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

حمزہ شہباز کے 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو منحرف قرار دینے کا اعلامیہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہٰی کو بھیجا تھا، جو وزیر اعلیٰ کے لیے پی ٹی آئی،پی ایم ایل (ق) کے مشترکہ امیدوار بھی تھے۔

اس کے بعد پرویز الہٰی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا اور اس پر زور دیا تھا کہ ان قانون سازوں کو پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا جائے۔

ڈی سیٹ ارکان اسمبلی کے نام اور حلقے

  1. راجا صغیر، پی پی 7 راولپنڈی
  2. ملک غلام رسول سانگھا، پی پی 83 خوشاب
  3. سعید اکبرخان نوانی، پی پی 90 بھکر
  4. محمد اجمل چیمہ، پی پی 97 فیصل آباد
  5. عبد العلیم خان، پی پی 158 لاہور
  6. نذیر احمد چوہان، پی پی 167 لاہور
  7. محمد امین ذوالقرنین، پی پی 170 لاہور
  8. ملک نعمان لنگڑیال، پی پی 202 ساہیوال
  9. محمد سلمان نعیم، پی پی 217 ملتان
  10. زوار حسین وڑائچ، پی پی 224 لودھراں
  11. نذیر احمد خان، پی پی 228 لودھراں
  12. فدا حسین، پی پی 237 بہاولنگر
  13. زہرا بتول، پی پی 272 مظفر گڑھ
  14. محمد طاہر، پی پی 282 لیہ
  15. اسد کھوکھر، پی پی 168 لاہور
  16. محمد سبطین رضا، پی پی 273 مظفر گڑھ
  17. محسن عطا خان کھوسہ، پی پی 288 ڈی جی خان
  18. میاں خالد محمود، پی پی 140 شیخوپورہ
  19. مہر محمد اسلم، پی پی 127 جھنگ
  20. فیصل حیات جبوانہ، پی پی 125 جھنگ
  21. ہارون عمران گل، این ایم 364 اقلیتی نشست
  22. اعجاز مسیح، این ایم 365 اقلیتی نشست
  23. عائشہ نواز، ڈبلیو 322 مخصوص نشست
  24. ساجدہ یوسف ڈبلیو 327 مخصوص نشست
  25. عظمیٰ کاردار ڈبلیو 311 مخصوص نشست

آرٹیکل 63 اے

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔

اگر پارلیمنٹیرین وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کے انتخابات کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا عدم اعتماد کا ووٹ دینے سے باز رہتا ہے تو اس سے نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پارٹی سربراہ کو تحریری طور پر اعلان کرنا ہوگا کہ متعلقہ رکن اسمبلی منحرف ہوگیا ہے لیکن اعلان کرنے سے قبل پارٹی سربراہ ‘منحرف رکن کو وضاحت دینے کا موقع فراہم کرے گا’۔

اراکین کو ان کی وجوہات بیان کرنے کا موقع دینے کے بعد پارٹی سربراہ اعلامیہ اسپیکر کو بھیجے گا اور وہ اعلامیہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا۔

بعدازاں چیف الیکشن کمیشن کے پاس اعلان کی تصدیق کے لیے 30 دن ہوں گے۔

آرٹیکل کے مطابق اگر چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے تصدیق ہو جاتی ہے، تو مذکورہ رکن ‘ایوان کا حصہ نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی’۔

اپنا تبصرہ بھیجیں