اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں عطیہ دینے والے ممالک اور اداروں پر زور دیا گیا کہ وہ پاکستان میں بحالی اور تعمیر نو کی کوششوں میں مکمل تعاون فراہم کریں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے قرارداد کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں قدرتی آفات کے بڑے پیمانے اثرات برسوں تک رہ سکتے ہیں، حکومتِ پاکستان کے لیے بڑے پیمانے پر رہنمائی اور تعاون انتہائی ضروری ہے۔
159 ممالک کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کی گئی اس قرارداد میں عالمی برادری، خصوصاً عطیہ دہندگان ممالک، عالمی مالیاتی اداروں اور متعلقہ عالمی تنظیموں سمیت نجی شعبوں اور سول سوسائٹی پر زور دیا گیا ہے کہ سیلاب کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے اور بحالی کے اقدامات کے لیے پاکستان کی بھرپور حمایت اور مدد کریں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا کہ ’پاکستان جیسے ممالک، جو اس طرح کی موسمیاتی آفات کا سامنا کررہے ہیں، انہیں اپنے تحفظ کے لیے تنہا نہیں چھوڑا جانا چاہیے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ایک ایسے عالمی میکانزم کی ضرورت ہے جو قدرتی آفات سے متاثرہ ممالک کو وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنائے تاکہ وہ قدرتی آفات کے اثرات کی شدت کو کم کر سکیں اور جلد بحالی کی جانب جا سکیں‘۔
جنرل سیکریٹری اقوام متحدہ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے وہاں صرف سیلاب سے ہونے والی تباہی نہیں دیکھی، میں نے انسانیت کا بہترین جذبہ بھی دیکھا، میں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے میں پڑوسیوں اور انجان افراد کی بے پناہ سخاوت اور یکجہتی بھی دیکھی، لوگوں نے سب بھول بھال کر اور خود کو خطرے میں ڈالا اور دوسروں کو ریسکیو کیا‘۔
سیکرٹری جنرل نے یاد دہانی کروائی کہ 4 اکتوبر کو اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے 81 کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد کی نظرثانی شدہ اپیل کا اجرا کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں عطیہ دہندگان، عالمی مالیاتی اداروں، نجی شعبوں اور سول سوسائٹی سمیت دیگر متعلقہ عالمی تنظیموں پر زور دیتا ہوں کہ وہ ان کوششوں میں مکمل تعاون کریں۔
کورونا وبا اور قدرتی آفات کے معاشی اثرات کے موضوع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کے دوران پاکستان نے عالمی معاہدوں اور دو طرفہ انتظامات کے تحت تقریباً 60 ترقی پذیر ممالک کو درپیش قرضوں کے ادائیگی کے چیلنجز کو جلد حل کرنے پر زور دیا۔
پاکستان نے خاص طور پر جی-20 کامن فریم ورک کو نافذ کرنے پر زور دیا جوکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کو درپیش غیر پائیدار قرضوں کے مسئلے کو حل کرنے پر مرکوز ہے۔
مختلف مالیاتی اداروں کی حالیہ رپورٹس اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ کم آمدنی والے ممالک میں سے تقریباً 60 فیصد زیادہ خطرے کا شکار ہیں یا پہلے ہی قرض کی ادائیگی میں پریشانی کا سامنا کررہے ہیں، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں 73 ممالک کی فہرست شائع کی ہے جنہیں قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان نے متنبہ کیا کہ 50 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں پریشانی کا سامنا ہے اور بہت سے ملک دیوالیہ ہو سکتے ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی مسلسل بھاری نقصانات کا سبب بن رہی ہے۔
پاکستان نے گروپ آف 77 (ترقی پذیر ممالک) اور چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عالمی معیشت کو لگنے والے حالیہ دھچکوں پر قابو پانے کے لیے ایک واضح روڈ میپ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
پاکستان جی-77 کا موجودہ سربراہ ہے جس کے اب 134 ارکان ہیں اور یہ ابھرتے ہوئے ممالک کا اقوام متحدہ میں سب سے بڑا بین الحکومتی گروپ ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی اس قرارداد میں تسلیم کیا گیا کہ ماحوالیاتی تبدیلی کے اثرات کا زیادہ شدت سے سامنا کرنے والے ترقی پذیر ممالک میں ان اثرات میں کمی اور بحالی کی کوششوں میں مدد کے لیے عالمی موسمیاتی امداد میں اضافہ ضروری ہے۔
اس قرارداد میں متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے امداد اور وعدوں کے لیے ایک عہد ساز کانفرنس بلانے کا خیرمقدم کیا گیا اور اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک سے اس میں بھرپور شرکت کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
قرارداد میں سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام اداروں سے درخواست کی گئی کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مؤثر انداز میں نمٹنے اور تعمیر نو کی جدوجہد میں پاکستان کی مدد جاری رکھیں۔
قرارداد میں سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے زیرانتظام اداروں پر زور دیا کہ وہ عالمی برادری کو پاکستان میں بحالی اور تعمیر نو کی ضروریات سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی کوششوں کو مزید تیز کریں اور پاکستان کے لیے مؤثر، فوری اور معقول حمایت اور امداد کو راغب کریں۔