عالمی بینک کے مطابق بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے افغانستان میں غذائیت اور صحت کی مدد کے لیے اقوام متحدہ کے اداروں کو فنڈز منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ملک کو اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحران کا سامنا ہے۔
عالمی بینک نے دس دسمبر جمعے کے روز بتایا کہ ‘افغان تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ’ (اے آر ٹی ایف) کو عطیہ فراہم کرنے والے ممالک نے افغانستان کے لیے 28 کروڑ امریکی ڈالر کی رقم بطور امداد جاری کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ملک کو اس وقت شدید قحط اور معاشی بحران کا سامنا ہے اور اسے فوری امداد کی ضرورت ہے۔
عالمی بینک نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا، “اس نازک وقت میں افغانستان کے لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کے لیے، اے آر ٹی ایف کے پورٹ فولیو میں فنڈز کو دوبارہ بھرنے کا فیصلہ، اس سمت میں پہلا قدم ہے۔”
یہ رقم افغانستان کے طالبان حکمرانوں کو براہ راست فراہم کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کی دو ایجنسیوں کو فراہم کی جائے گی۔ منجمد ٹرسٹ کے فنڈز سے یہ امداد افغانستان میں غذائیت اور شعبہ صحت کی مدد کے لیے ‘ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف اے) اور بچوں کی فلاح و بہود کے ادارے یونیسیف کو منتقل کی جائے گی۔
افغان تعمیر نو ٹرسٹ فنڈ (اے آر ٹی ایف) کا انتظام و انصرام عالمی بینک کے ہاتھ میں ہے اور یہی ادارہ 18 کروڑ ڈالر کی امداد ورلڈ فوڈ پروگرام کو اسی برس فراہم کرے گا تاکہ خوراک کے تحفظ اور غذائیت کے کاموں کو تیزی آگے بڑھایا جا سکے۔
ورلڈ بینک کے اعلان کے مطابق باقی کی دس کروڑ ڈالر کی امداد افغانستان میں ضروری صحت کی خدمات فراہم کرنے کے لیے یونیسیف کو مہیا کی جائے گی۔
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی ان دونوں ایجنسیوں کے پاس، “افغان سرزمین پر موجودگی کے سبب رسد کی فراہمی کی صلاحیت اور تجربہ ہے اور وہی ان فنڈز کو اپنے موجودہ پروگراموں میں مالیاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے استعمال کریں گی تاکہ صحت اور غذائیت کی خدمات براہ راست افغان عوام تک پہنچائی جا سکیں۔”
افغانستان میں انسانی بحران
حالیہ مہینوں میں اقوام متحدہ نے بارہا متنبہ کیا ہے کہ افغانستان دنیا کے بدترین انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ غربت اور شدید قحط کی مار جھیلنے والے افغانستان میں اب شدید سردی کا قہر بھی شروع ہو چکا ہے۔ اس صورت حال میں ملک کی سوا دو کروڑ عوام یعنی تقریبا نصف آبادی کو اس وقت خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
گزشتہ اگست میں اس بحران میں تیزی اس وقت آئی جب امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد مغربی ممالک کی حمایت یافتہ افغان حکومت گر گئی اور طالبان نے ملک پر اپنا کنٹرول حاصل کر لیا۔
اس کے ساتھ ہی امریکا اور دیگر عطیہ دہندگان نے 20 برس سے جاری جنگ کے دوران ملک کو دی جانے والی وہ مالی امداد بھی بند کر دی جس پر اس کی معیشت کا انحصار تھا۔ اقوام متحدہ نے مغرب کے اس فیصلے کو ایک، “بے مثال مالیاتی جھٹکا” قرار دیا تھا۔
ایک طرف جہاں واشنگٹن نے افغانستان کی تقریبا دس ارب ڈالر سے زیادہ کرنسی اثاثوں کو منجمد کر دیا وہیں دوسری جانب بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک نے بھی اس کی فنڈنگ تک رسائی کو روک دیا۔
عالمی سطح پر بڑھنے والی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی خشک سالی کے اثرات کی وجہ سے بھی افغانستان کا موجودہ بحران مزید شدید ہو گیا ہے۔