افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے طالبان کو کابل میں قبضے میں لیے گئے نجی گھر فوری طور پر خالی کرکے وہاں سے نکلنے کا حکم دیا ہے اور انہیں فوری فوجی اڈوں پر رپورٹ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان اہلکاروں نے 15اگست کو افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان گھروں پر قبضہ کر لیا تھا تاہم اب اس حوالے سے باضابطہ اعلان کردیا گیا ہے۔
عبوری وزیر اعظم حسن اخوند کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق نجی گھروں میں رہنے والے طالبان کے دفاع، داخلہ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار ملک بھر میں فوجی اڈوں پر واپس رپورٹ کریں۔
طالبان کے سیکیورٹی اہلکار بلال کریمی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو وزیر اعظم کی اس ہدایت کی تصدیق کی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ ہفتوں میں طالبان نے اپنے روایتی اور شہری لباس کو ترک کر کے عسکری لباس پہن لیا ہے۔
اگست کے وسط میں افغان فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے جس کے بعد طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
دوسری جانب جمعرات کو کابل میں طالبان نے مقامی اسکول کے باہر چھ خواتین پر مشتمل ایک چھوٹی ریلی کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی جہاں یہ خواتین تعلیم کے مساوی حقوق کا مطالبہ کررہی تھیں۔
انہوں نے خواتین کے ہاتھوں میں موجود پوسٹر اور بینر بھی ضبط کر لیے جن پر لکھا تھا کہ ہماری کتابیں مت جلائیں۔
عینی شاہدین نے کہا کہ کارت چار محلے میں ہونے والے اس احتجاج میں شرکت کے لیے آنے والی دیگر خواتین کو بعد میں گھر جانے کی ہدایت کردی گئی۔
ایک طالبان عہدیدار مولوی نصرت اللہ نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ خواتین نے ریلی کی اجازت نہیں مانگی تھی۔
ملک کا کنٹرول سنبھالے کے بعد سے طالبان نے خواتین کی ریلیوں اور احتجاج کو تشدد کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی جہاں یہ خواتین ملک میں گزشتہ 20سالوں کے دوران حاصل کیے گئے اختیارات بحال کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن برائے ریڈ کراس کے علاقائی ڈائریکٹر الیگزینڈر میتھیو نے کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیش گوئی کی کہ آئندہ چند ماہ بہت مشکل ہوں گے کیونکہ کچھ ماہ بعد درجہ حرارت میں کمی آئے گی، خشک سالی اور غربت سے خوراک کی قلت میں اضافہ ہوگا اور ناقص صحت کی سہولیات کے سبب خصوصاً دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افغان باشندے خطرے میں ہوں گے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ موومنٹ نے افغانستان کے لیے ساڑھے تین کروڑ ڈالر سے زائد کی فراہمی کی اپیل کی ہے تاکہ ملک کے 16 صوبوں میں ہیلتھ کلینک، ایمرجنسی ریلیف اور دیگر خدمات فراہم کی جا سکیں۔
بدھ کو اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے عطیہ دہندگان سے 60کروڑ ڈالر کے فنڈز کی مکمل فراہمی کی اپیل کی ہے کیونکہ اب تک صرف 22فیصد امداد جاری کی جا سکی ہے۔
الیگزینڈر میتھیو نے کہا کہ افغانستان میں مالی بہاؤ کا کوئی حل نکالنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کم از کم تنخواہیں ادا کی جا سکیں اور عوام ضروری سامان اور سہولیات حاصل کر سکیں۔
اگست کے وسط میں طالبان کی جانب سے کنٹرول سنبھالنے کے بعد عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے کابل کو ادائیگی روک دی ہے جبکہ امریکا نے افغان سینٹرل بینک کے امریکی اکاؤنٹس میں موجود اربوں ڈالر منجمد کر دیے تھے۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سے قبل افغانستان کے سرکاری اخراجات کا تقریبا 75 فیصد حصہ بیرونی امداد پر مشتمل تھا۔
میتھیو نے ملک کے پانچ روزہ دورے کے اختتام پر کہا کہ صحت کی سہولیات میں کٹوتی کے سبب صحت کی ڈھائی ہزار سہولیات اب کام نہیں کر رہیں اور 7ہزار خواتین سمیت 20ہزار سے زیادہ صحت کے عملے کو اب بھی ادائیگی نہیں کی جا رہی۔
بین الاقوامی برادری افغانستان کو امداد دوبارہ شروع کرنے کے معاملے پر تقسیم ہے کیونکہ اکثر عالمی طاقتیں اس بات کی منتظر ہیں کہ طالبان کس قسم کا طرز حکمرانی نافذ کرتے ہیں۔
چینی امداد
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونئنگ نے جمعرات کو کہا کہ چین نے افغانستان کو موسم سرما کا سامان پہنچا دیا ہے اور وہ جلد ہی دوست پڑوسی ملک کے طور پر خوراک اور دیگر سامان کی فراہمی بھی شروع کر دے گا، سامان کی یہ کھیپ بدھ کی رات کو پہنچی۔
چین نے کابل میں اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا ہوا ہے اور طالبان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں