افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی بڑھ گئی

افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقوں میں رواں برس کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حکام اور ماہرین اس کی وجہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کو قرار دے رہے ہیں۔

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں سال دو ہزار اکیس کے دوران اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں دہشت گردانہ واقعات میں نوے فیصد تک اضافہ ہوا۔ یہ بات اس صوبے کے محکمہ داخلہ کی طرف سے بتائی گئی ہے۔

اعداد وشمار کے مطابق سال دو ہزار اکیس کے دوران اب تک دہشت گردی کے ایک سو سینتیس واقعات رپورٹ کیے گئے جن میں ایک سو تیس سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سکیورٹی فورسز کے ارکان بھی شامل تھے۔

سکیورٹی کے حوالے سے ایک پاکستانی تجزیہ کار عامر رانا نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ”حالیہ مہینوں کے دوران چھوٹے حملوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ مذہبی شدت پسند اور بلوچ علیحدگی پسند ان حملوں کے پیچھے تھے جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد سے تحریک طالبان پاکستان یاٹی ٹی پی پاکستانی علاقوں میں سینکڑوں حملے کر چکی ہے۔ ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے درمیان ایک مہینے کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے یہ شدت پسند گروپ کم از کم سولہ حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکا ہے۔ ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان دس دسمبر کو کیا تھا۔

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے حساب سے سب سے بڑا صوبہ ہے جو داخلی تنازعات کا شکار ہے۔ اس کی سرحد افغانستان اور ایران کے ساتھ لگتی ہے اور مذہبی شدت پسند، نسل پرستانہ گروپ اور علیحدگی پسند یہاں  اکثر پرتشدد کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

بلوچستان میں پرتشدد واقعات کی بڑی وجہ چین کے اس صوبے میں سرمایہ کاری پر ردعمل کو قرار دیا جاتا ہے۔ چین سی پیک پراجیکٹ کے ذریعے اپنے صوبے سنکیانگ کو صوبہ بلوچستان کے راستے بحیرہ عرب سے منسلک کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستانی علاقے اور خاص طور پر بلوچستان میں سڑکوں کا نیٹ ورک اور دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کیاجا رہا ہے۔

اسی تناظر میں پاکستانی سکیورٹی فورسز اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایسے ورکرز پر حملے عام ہیں جو سی پیک پراجیکٹ سے جڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں