اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب نہ ہوتے تو آج حکومت میں ہوتے، فواد چوہدری

سابق وزیر اطلاعات اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کئی مہینوں سے خراب چل رہے تھے اور اگر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب نہ ہوتے تو آج ہم حکومت میں ہوتے۔

نجی ٹی وی چینل ’ایکسپریس نیوز‘ کے پروگرام ’ٹو دی پوائنٹ‘ میں اینکر منصور علی خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب نہ ہوتے تو حکومت میں ہوتے۔تعلقات خراب ہونے کی مدت سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے شعر پڑھ کر جواب دیا ’وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘۔انہوں نے کہا کہ کئی مہینوں سے تعلقات خراب تھے، ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی، میں نے بھی بہت کوشش کی لیکن ٹھیک نہیں ہوسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سابق جج نے اس حوالے سے تجزیہ کیا جس سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ اس سب میں نقصان پی ٹی آئی یا پی ڈی ایم کا نہیں ہوا، پی ٹی آئی کو اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس مل گئی جو شاید اب 2018 سے بھی اوپر ہے اور پی ڈی ایم حکومت میں آکر اپنا گزشتہ 3 سال کا خرچہ پورا کرلے گی، اصل نقصان صرف اسٹیبلشمنٹ کے 2 اداروں کا ہوا ہے جن کا وقار مٹی میں مل گیا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کے 2 اداروں سے مراد فوج اور عدلیہ ہے، ان ہی 2 اداروں کو لے کر تنازع پیدا ہوا۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا تھا، عمران خان اتنی لمبی منصوبہ بندی نہیں کرتے، عمران خان میں بہت خامیاں ہوں گی لیکن وہ سازشی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں رانا ثنااللہ سے یہی بات کر رہا تھا کہ ہم سیاستدان اتنے کوتاہ اندیش ہیں کہ ہم سے اب تک یہی مسئلہ حل نہیں ہو سکا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ ہر دو ڈھائی سال بعد عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے لیکن ہم اس معاملے میں آگے نہیں بڑھ پارہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ رانا ثنااللہ نے میری اس بات سے اتفاق کیا اور انہوں نے بھی کہا کہ اس پر ایک فارمولا ہونا چاہیے جس میں کم از کم پتا تو ہو کہ معاملہ کس جانب جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے شک تجربے کی بنیاد پر تعیناتی کا کوئی فارمولا بنالیں، جیسے سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی تعیناتی سنیارٹی کی بنیاد پر کی جاتی ہے، کئی فارمولے ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن نے 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس پر تاخیر کے بعد 3 اپریل کو ووٹنگ متوقع تھی۔

27 مارچ کو سابق وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے، انہوں نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔

بعد ازاں سابق وفاقی وزیر اسد عمر کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے لندن میں بہت ساری ملاقاتیں کی ہیں اور وہ ملاقاتیں رپورٹ بھی ہوئی ہیں کہ جس میں ان کی اسرائیلی سفارت کار سے بھی ملاقات ہوئی ہے، پھر اس کے بعد ہمیں یہ خط موصول ہوا ہے جس میں تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے جبکہ یہ خط تحریک عدم اعتماد جمع کرانے سے پہلے کا ہے اور یہ ہی بات قابل تشویش ہے۔

3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک کو آئین و قانون کے منافی قراد دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اجلاس غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

ایوانِ زیریں کا اجلاس ملتوی ہونے کے فوراً بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھجوانے کا اعلان کیا تھا اور قوم کو نئے انتخابات کی تیاری کرنے کی ہدایت کی تھی ۔

بعدازاں صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 58 (1) اور 48 (1) کے تحت وزیراعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے تجویز منظور کرلی تھی۔

قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد رہنما سابق وزیر اعظم کے دفتر پہنچے اور’کامیاب سرپرائز‘ پر انہیں مبارکباد دی، اس موقع پر عمران خان نے انکشاف کیا کہ امریکا نے پاکستانی سفیر کے ذریعے دھمکی آمیز پیغام بھیجا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں خبردار کیا تھا کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

تاہم اس تمام معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا اور 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں 9 اپریل کی رات گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تھی جس کے بعد وہ وزیراعظم کے عہدے سے برطرف ہوگئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں