اسلام آباد ہائیکورٹ کے ساتھ منسلک مصالحتی مرکز کا افتتاح کر دیا گیا۔
افتتاحی تقریب سے خطاب میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں 18 ہزار اور ضلعی عدلیہ میں 50 ہزار کیسز زیر التوا ہیں، مصالحتی مرکز کے بعد عدالتوں پر کیسز کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہا کہ مصالحتی مراکز میں مسائل کو حل کرانے کیلئے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس وقت اپنے ججز کی سوچ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ عوام مصالحت کے فوائد کے بارے میں جانیں گے تو اس طرف متوجہ ہوں گے، اگر مصالحتی مرکز میں مسئلہ حل نہیں ہوتا تو اس کے بعد عدالتیں تو بہرحال موجود ہیں۔
تقریب سے خطاب میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن نے اچھے نتائج کی توقع کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے کراچی میں قائم مصالحتی مرکز نے اچھا رزلٹ دیا، مصالحتی مرکز عدلیہ کا حصہ ہے جو کیسز کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو روزانہ کی بنیاد پر ثالثی کے لائق کیسز کو مصالحتی سینٹر بھیجنا چاہیے۔
اپنے خطاب میں جسٹس محسن اختر کیانی کا کہناتھا کہ غیر سنجیدہ درخواستیں دائر کرنے والوں پر جرمانے عائد کرنے ہوں گے، یہ ایک پیغام ہوگا جس کے بعد لوگ ثالثی کی طرف جائیں گے۔
مصالحتی مرکز کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں مصالحتی مراکز نہ ہونے کے باعث بہت بڑی تعداد میں کیسز کا سامنا ہے، مصالحت کا تصور باہمی رضامندی سے مشروط ہے جس کو فریقین خود رضامندی سے تسلیم کرتے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے بتایا کہ ترکی میں مختصر عرصے کے دوران 30 لاکھ کیسز مصالحت کے ذریعے طے کیے گئے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ مشیرعالم کا کہنا تھا کہ انہوں نے مختلف ممالک میں مصالحتی مراکز کے دورے کیے، ہمارے یہاں بھی اس بارے میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔