‘آزادی مارچ’میں توڑ پھوڑ: پی ٹی آئی رہنماؤں نے ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، شفقت محمود اور عندلیب عباس سمیت متعدد رہنماؤں نے پارٹی کے 25 مئی کے آزادی مارچ کے دوران تشدد اور توڑ پھوڑ کے مقدمات میں ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں کیونکہ پولیس نے لاہور کی دو عدالتوں میں بتایا کہ تفتیش کے دوران وہ قصوروار نہیں ٹھہرے۔

25 مئی کو اسلام آباد کی طرف ‘حقیقی آزادی مارچ’ کرنے پر پولیس نے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان پر متعدد مقدمات درج کیے تھے جبکہ صرف پنجاب میں ان کے خلاف 42 مقدمات درج ہوئے تھے۔آج لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے تحریک انصاف کے رہنماؤں یاسمین راشد، عندلیب عباسی، محمود الرشید، عمیر خان نیازی، مسرت جمشید چیمہ، میاں اسلم اقبال اور ندیم عباس کی عبوری ضمات کی درخواستوں پر سماعت کی۔

ملزمان کے وکیل برہان معظم ملک نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج ابہار گل خان کو بتایا کہ پولیس نے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو 4 مقدمات میں قصوروار نہیں ٹھہرایا۔

وکیل نے سیاسی رہنماؤں پر دہشت گردی کے الزامات کے تحت درج مقدمات کو آئین اور جمہوریت کے برعکس قدم قرار دیا اور کہا کہ دہشت گردی کے قوانین دہشت گردوں کے لیے بنائے گئے ہیں، سیاسی رہنماؤں کے لیے نہیں۔

لاہور پولیس نے بھی عدالت کو آگاہ کیا کہ گلبرگ، بھاٹی گیٹ، شفیق آباد اور شاہدرہ تھانوں میں درج 4 مقدمات سے دہشت گردی کے الزامات کو ختم کیا گیا ہے کیونکہ ملزمان بے گناہ ہیں۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ چاروں مقدمات میں پی ٹی آئی کے کسی بھی رکن پر لگائے گئے الزامات میں کوئی سچ نہیں، ان مقدمات میں کسی بھی مشتبہ کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

بعد ازاں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنی عبوری ضمانت کی درخواستیں واپس لے لیں۔

اس کے علاوہ لاہور کی سیشن عدالت نے شفقت محمود اور دیگر افراد پر درج اسی طرح کے الزامات میں مقدمات پر عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس نے تحقیقات کے دوران پی ٹی آئی رہنما اور پارٹی کارکنان کو قصوروار نہیں پایا۔

بعد ازاں عبوری ضمانت کی درخواست واپس لی گئیں۔

ایک دن قبل شفقت محمود نے پارٹی کے ‘آزادی مارچ’ کے دوران پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف جعلی مقدمات اور غیر قانونی پولیس کارروائی کے اقدامات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے لاہور کیپٹل سٹی پولیس افسر سے ملاقات کی تھی۔

آزادی مارچ

خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو منصب سے ہٹانے کے لیے اپریل میں قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تھی جو کامیاب ہوئی تھی جس کے بعد تحریک انصاف نے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات اور بیرونی سازش کے خلاف 25 مئی کو اسلام آباد کی طرف ‘آزادی مارچ’ کیا تھا۔

حکومت نے اشتعال انگیزی اور کشیدہ صورتحال سے نمٹنے اور آزادی مارچ کے شرکا کو ڈی چوک پر پہنچنے سے روکنے کے پیش نظر دارالحکومت کی اہم شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں جبکہ ملک کے مختلف علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی جس کے تحت چار سے زائد افراد اکٹھا نہیں ہو سکتے۔

مارچ کے شرکا دفعہ 144 کی پرواہ کیے بغیر تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد کی طرف بڑھنے لگے تو پولیس نے ان کو روکنے کے لیے ردعمل دیا جس پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی، پولیس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے مارچ کے شرکا پر آنسو گیس، لاٹھی چارج اور ربر کی گولیاں فائر کیں جس میں کچھ کارکنان زخمی بھی ہوئے تھے۔

ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز اور تصاویر میں مرکزی شاہراہوں سے ملحقہ گرین بیلٹس میں آگ اور دھواں دیکھا گیا تھا۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ آگ پی ٹی آئی کے حامیوں نے لگائی تھی جبکہ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ آگ پولیس کی شیلنگ سی لگی تھی، تاہم اس بات کی ابھی تک آزادانہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ وہ آگ کس نے لگائی تھی۔

26 مارچ کی صبح عمران خان نے حکومت کو ملک میں نئے انتخابات کروانے کے لیے 6 دن کا وقت دیتے ہوئے مارچ ختم کرنے کا اعلان کیا جبکہ مارچ ختم کرتے وقت عمران خان نے خبردار کیا تھا کہ اگر انتخابات کا اعلان نہیں ہوا تو وہ پھر اسلام آباد آئیں گے۔

مارچ کو منسوخ کرنے کے فوراً بعد عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں پر 25 مئی کے مارچ کے دوران توڑ پھوڑ اور تشدد کے الزامات کے تحت ملک بھر میں متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں