آرمی چیف کا تقرر ‘متنازع بنانے’ پر اتحادی حکومت کی عمران خان پر تنقید

وزیر اعظم شہباز شریف اور حکومت کے دیگر اتحادی رہنماؤں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان پر مسلح افواج کے خلاف ‘زہریلے الزامات’ لگانے اور نئے آرمی چیف کے تقرر کو ‘متنازع بنانے’ پر تنقید کی۔

عمران خان نے گزشتہ روز فیصل آباد میں ایک ریلی میں الزام لگایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپشن کے مقدمات میں اپنے آپ کو بچانے کے لیے نومبر میں ‘اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر’ کرنا چاہتے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا تھا کہ ‘وہ اپنا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اگر کوئی مضبوط اور محب وطن آرمی چیف مقرر کیا گیا تو وہ ان سے لوٹی ہوئی دولت کے بارے میں پوچھے گا’۔

عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ‘وہ (حکومت میں) اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ وہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے اپنی پسند کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں’۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ‘اس ملک کا آرمی چیف میرٹ پر ہونا چاہیے، جو میرٹ پر ہو اس کو آرمی چیف بننا چاہیے، کسی کی پسند کا آرمی چیف نہیں ہونا چاہیے’۔

خیال رہے کہ موجود چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2016 میں تعینات کیا گیا تھا جو کہ نومبر کے آخری ہفتے میں ریٹائر ہونے والے ہیں، آرمی چیف کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوتی ہے لیکن جنرل قمر باجوہ کو سیاسی ڈرامے کے بعد 2019 میں تین سال کی توسیع دے دی گئی تھی۔پی ٹی آئی کے سربراہ کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے آج ایک ٹوئٹ میں کہا کہ عمران خان کی ‘اداروں کو بدنام کرنے کے لیے نفرت انگیز باتیں ہر روز نئی سطحوں کو چھو رہی ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘اب وہ مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف براہ راست کیچڑ اچھالنے اور زہریلے الزامات لگانے میں ملوث ہیں’، عمران خان کے ‘مجرمانہ ایجنڈے’ کا مقصد پاکستان کو افراتفری کا شکار بنانا اور اسے کمزور کرنا ہے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ قوم اب ملک میں انتشار پھیلانے والے شخص سے واقف ہے، آج سب کو انسان اور حیوان کا پتا چل گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘اس شخص نے ملک کو کمزور کرنے کا کہیں سے ٹھیکا لیا ہوا ہے جو ہمارے جیتے جی نہیں ہوسکتا، ہم اپنے اداروں اور جرنیلوں کو اس شخص کی ہوس کی خاطر متنازع نہیں بننے دیں گے، ہمارے ہر سپاہی سے لے کر جرنیل تک ہر ایک بہادر اور محبت وطن ہے’۔سابق صدر نے خیبرپختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں کو سیلابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لینے پر بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہر جگہ صرف وفاقی حکومت ہی نظر آتی ہے۔وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے ٹوئٹ کیا کہ تباہ کن سیلاب کے دوران پی ٹی آئی چیئرمین سیاسی فضا کو آلودہ اور ملک کو انتشار کی جانب دھکیلے جارہے ہیں۔

دریں اثنا وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کو شعور نہیں وہ سیکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب یہ لاڈلا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر اپنے پسندیدہ آرمی چیف لگا کر مراعات لینے کا الزام لگا رہا ہے، وہ اداروں کو متنازع بنا کر ہمیں غداری کے سرٹیفکیٹ دے رہا ہے۔

شیری رحمٰن نے مزید کہا کہ عمران خان دو سال تک مخالفین کو جیل میں رکھنے کے بعد بھی مخلوط حکومت کے خلاف درج مقدمات میں سے ایک بھی ثابت نہیں کر سکے۔

آرمی چیف کا تقرر

اگلے آرمی چیف کے تقرر کا ذکر بعض اوقات ملک میں جاری سیاسی بحران میں ایک اہم معاملے کے طور پر کیا جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما، وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے پس منظر میں ہونے والی بات چیت میں اشارہ دیا تھا کہ وزیر اعظم شہباز شریف اگست کے آخر تک تقرر پر بات چیت شروع اور ستمبر کے وسط تک ممکنہ طور پر کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔

عام تاثر یہ ہے کہ وہ حتمی اعلان کرنے سے پہلے حکمراں اتحاد میں شامل اپنے اتحادیوں سے مشورہ کریں گے۔

تاہم پاکستان پیپلز پارٹی ذرائع نے ظاہر کیا تھا کہ پارٹی شاید اس میں شامل نہیں ہونا چاہتی کیونکہ یہ فیصلہ کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔

آئین کے آرٹیکل 243 (3) کے مطابق صدر وزیراعظم کی سفارش پر سروسز چیفس کا تقرر کرتا ہے۔

رولز آف بزنس کا شیڈول V-A کہتا ہے کہ ‘فوج میں لیفٹیننٹ جنرل اور اس سے اوپر کے عہدے اور اس کے مساوی عہدے۔ دیگر دفاعی خدمات میں تقرر کو وزیراعظم صدر کی مشاورت سے کریں گے’۔

تاہم یہ عمل جس طریقے سے چلتا ہے، رول بک میں اس کی واضح طور پر وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

نہ ہی ترقی پر غور کرنے کے لیے کوئی خاص معیار مقرر کیا گیا ہے، سوائے اس مبہم شرط کے کہ فوج کی قیادت کے لیے منتخب جنرل کو ایک کور کی کمانڈ کرنی چاہیے۔

روایت یہ ہے کہ جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) 4 سے 5 سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کی فہرست ان کی ذاتی فائلوں کے ساتھ وزارت دفاع کو بھیجتا ہے، جو انہیں وزیر اعظم کے پاس بھجواتی ہے تاکہ وہ اس عہدے کے لیے موزوں افسر منتخب کریں۔

نظریاتی طور پر وزارت دفاع، وزیر اعظم کو پیش کرنے سے پہلے ناموں کی جانچ کر سکتی ہے لیکن ایسا عام طور پر نہیں ہوتا اور وزارت محض ایک ڈاک خانے کے طور پر کام کرتی ہے۔

اس کے بعد جرنیلوں کی اسناد پر وزیر اعظم کے دفتر یا کابینہ میں غور کیا جاتا ہے۔

پھر یہ معاملہ سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کے ساتھ وزیر اعظم کی ’غیر رسمی مشاورت‘، ان کے اپنے تاثرات اور اپنے قریبی مشیروں کے ساتھ بات چیت تک آتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں