آرمی پبلک اسکول کے مقتول بچوں کے والدین: ’ہم نے ان کے قلم بھی سنبھال کر رکھے ہیں‘

پشاور کے اسکول میں مارے جانے والے بچوں کے والدین نے حکومت پر ہمدردی سے محروم ہونے کا الزام لگایا ہے۔ آرمی پبلک اسکول پر حملہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خونی دہشت گردانہ حملہ تھا جس میں 132 بچے موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔

سن 2020 میں پاکستانی پارلیمنٹیرین مسرت جمشید چیمہ، ڈاکٹر بدر منیر اور سول سوسائٹی کے کارکن اُس شبینہ دعا میں شریک ہوئے تھے، جس میں حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کی یاد میں شمعیں بھی روشن کی گئیں تھیں۔ ان شہید ہونے والے بچوں کا تعلق پشاور کے آرمی پبلک اسکول سے تھا اور حملہ سولہ دسمبر سن 2014 میں کیا گیا تھا۔ حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کا تعلق تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ان غم زدہ افراد میں ایک شاہانہ عجون بھی ہیں، جن کے لیے دسمبر کا مہینہ رنج و غم اور شدید پریشانی کا باعث ہوتا ہے۔ ان کا خاندان سات برس قبل کیے گئے دہشت گردانہ حملے کی شدت کو پھر محسوس کرتا ہے اور وہ ابھی بھی اس کوشش میں ہیں کہ غم کی اس شدت کو مناسب انداز میں سہار سکیں۔

گزشتہ ماہ عمران خان حکومت نے عسکریت پسند گروپ ٹی ٹی پی کے ساتھ ایک ماہ کی جنگ بندی کا معاہدہ طے کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ پچھلے پندرہ برسوں میں اسی مسلح گروپ نے پاکستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں میں بے شمار باوردی اہلکاروں اور عام شہریوں کو ہلاک کیا ہے۔

اس عسکریت پسند گروپ نے ایک ماہ کی جنگ بندی میں مزید توسیع کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ حکومت نے معاہدے کی شرائط کا احترام نہیں کیا اور ان کے گرفتار ایک سو دو افراد کو رہائی نہیں دی ہے۔

حملوں کا دوبارہ آغاز

ایک ماہ کی جنگ بندی کے معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ عسکریت پسندوں نے اُن پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا جو پولیو ویکسین فراہم کرنے والی ٹیم کی حفاظت پر مامور تھے۔ یہ حملہ خیبر پختونخوا کے شمال مغربی ضلع ٹانک میں کیا گیا اور اس میں ایک پولیس اہلکار مارا گیا جب کہ دوسرا زخمی ہوا تھا۔

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سے وابستہ ریسرچر سمن رضوان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت نے انسداد دہشت گردی کے سارے بیانیے کو تبدیل کر دیا ہے اور ویسے بھی اس مسلح گروپ کے ساتھ یہ مذاکراتی عمل طویل مدتی نہیں ہو سکتا۔

سولہ دسمبر، ایسا پہلے کبھی کوئی دن نہ تھا

آرمی پبلک اسکول میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو ان کے دکھوں کے زخم پھر سے ہرے ہو جاتے ہیں۔ شاہانہ عجون کا کہنا ہے کہ سات سال قبل سولہ دسمبر کو منگل تھا اور وہ اس منگل کو کبھی بھی بھول نہیں سکتی، جب تین گھنٹوں تک اسکول میں خوف اور خون کا بھیانک سلسلہ جاری رہا۔ آٹھویں جماعت میں پڑھتا ان کا بیٹا اسفند خان اس حملے میں موت کی گہری وادی میں چلا گیا تھا۔ شہید اسفند خان کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کی ہمت دم توڑ گئی تھی جب انہیں معلوم ہوا کہ  ان کے بیٹے کو انتہائی قریب سے سر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یوں تو سات سال بیت چکے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ابھی ایک روز قبل ہوا ہے۔

آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین اور رشتہ دار ان بچوں کی ناگہانی موت پر آج بھی شدید غم زدہ ہیں۔ وہ آج بھی ان کی یونیفارمز، پین، کتابیں اور اسکول بیگز سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں دکھ بھری یادیں قرار دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں