وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے معاہدے میں تاخیر کے حوالے سے کہا ہے کہ دوست ممالک نے پاکستان کو سپورٹ کرنے کے وعدے کیے تھے، ہم سے ان کی تکمیل کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
سینیٹ کی گولڈن جوبلی کی تقریب کے حوالے سے منعقدہ ایوان کی ہول کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے واضح کیا کہ نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرے گا، ہمیں قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے، کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ماضی میں سب سے پہلے آئی ایم ایف معاہدہ ویب سائٹ پر ڈالا تھا، جیسے ہی آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا اسے وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔
آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پروگرام نیا نہیں جو اس حکومت نے کیا ہو، یہ پروگرام 2019 میں سابقہ حکومت نے شروع کیا، یہ 2020 میں مکمل ہو جانا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2016 تک آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا گیا تھا، لگتا ہے 2019 میں آئی ایم ایف کے ساتھ طے کیا گیا پروگرام نئی طرز کا تھا، اسٹیٹ بینک اور دیگر قانون پارلیمنٹ نے منظور کیے، میری رائے میں اس کے بعد مانیٹری پالیسی بہت زیادہ آزاد ہوگئی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر حکومت کی جانب سے نہیں ہے، آئی ایم ایف سے اس بار بات چیت بہت طویل اور بہت غیر معمولی ہے جس میں بہت زیادہ مطالبات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر چیز مکمل کرلی ہے، چند دوست ممالک نے پاکستان کو سپورٹ کرنے کے وعدے کیے تھے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ وہ ان وعدوں کو مکمل کریں، صرف یہی تاخیر کی وجہ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کا شکار ہے، اسٹیٹ بینک کے موجودہ ذخائر 4 ارب 30 کروڑ ڈالر ہیں جو بمشکل چند ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔
ایسی صورت حال میں ملک کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے، جس سے نہ صرف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ملیں گے بلکہ دوست ممالک اور دیگر کثیر الجہتی قرض دہندگان کی جانب سے فنڈز ملنے کی راہ بھی ہموار ہو گی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کئی ماہ سے 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے بات چیت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکے۔