سلام آباد: وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومتی اقدامات کی بدولت آئندہ دو سے تین ہفتوں میں چینی کی قیمتیں تیزی سے نیچے آئیں گی اور پنجاب میں 15 نومبر تک جو شوگر مل نہیں چلے گی اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔
پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ رواں سال ایک مرتبہ پھر سندھ میں گنے کی کرشنگ میں تاخیر کی جا رہی ہے، سندھ میں شوگر ملیں 15 اکتوبر تک چل جاتی ہیں لیکن ابھی تک وہ شوگر ملیں نہیں چلیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سندھ کی ان شوگر ملز کی تفصیلات موجود ہیں جنہوں نے بوائلر چلا کر پھر بند کر دیے، بوائلر کو سازش کے تحت بند کرایا گیا، سندھ کی شوگر ملیں چل رہی ہوں تو چینی کی قیمت نہیں بڑھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی سازش میں عوام پس رہے ہیں، سندھ میں شوگر ملوں کا نہ چلنا سندھ حکومت اور شوگر ملز ایسوسی ایشن سندھ زون کا گٹھ جوڑ اور وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی سازش ہے، سندھ حکومت سازش بے شک کرے لیکن عوام کو اس سے تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے، ہمارا سوال ہے کہ 15 اکتوبر تک سندھ میں جو شوگر ملیں چل جاتی تھیں وہ اب تک کیوں نہیں چلیں اور بوائلر چلا کر کیوں بند کر دیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے قانون بنایا تھا کہ جو شوگر ملیں وقت پر نہیں چلیں گی ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائیں گی اور انہیں 50 لاکھ روپے یومیہ جرمانہ بھی ہو گا، باقی صوبوں نے یہ قانون لاگو کر دیا ہے لیکن سندھ حکومت نے یہ قانون ابھی تک لاگو نہیں کیا۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ چینی کا تو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، گنے کا ذخیرہ نہیں ہو سکتا اور گنے کی خریدار صرف شوگر ملیں ہیں، ہر سال شوگر ملیں اپنے مطالبات منوانے کے لیے کرشنگ میں تاخیر کرتی تھیں اور حکومتوں پر دبائو ڈال کر برآمدات پر اربوں روپے کی سبسڈی لیتی تھیں اور حکومتوں کو بلیک میل کیا جاتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پچھلے سال پہلی مرتبہ 15 نومبر تک گنے کی کرشنگ کا آغاز ہوا اور کسانوں کو ان کی فصل کا جائز معاوضہ دیا گیا لیکن سندھ حکومت نے یہ قانون ابھی تک منظور نہیں کیا جس کا وہی ہو رہا ہے جس کا ہمیں خدشہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ باقی صوبوں کی طرح قانون منظور کرے اور شوگر ملوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے چینی مہنگی نہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت گندم بھی بروقت جاری نہیں کرتی، اسی وجہ سے سندھ میں آٹے کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور پنجاب اور دیگر صوبوں میں کم ہوتی ہے۔
حماد اظہر نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جنوبی پنجاب میں شوگر ملیں 15 نومبر اور وسطی اور شمالی پنجاب شوگر ملیں 20 نومبر سے کرشنگ شروع کر دیں گی، اگر مقررہ وقت تک شوگر ملیں نہ چلیں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، رواں سال گنے کی بھرپور پیداوار ہوئی ہے تو پھر کسان سے گنا نہ لینے کا کیا جواز بنتا ہے۔
وزیر توانائی نے چینی کی قیمتوں میں کمی کی امید ظاہر کرتے ہوئے یاد دہانی کرائی کہ گزشتہ سال بھی چینی کی قیمت 100 سے 110 روپے تک گئی تھی لیکن جب درآمدی چینی مارکیٹ میں آئی تو قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئیں اور گزشتہ نومبر میں چینی کی قیمت 70 روپے فی کلو تک آ گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال ایک لاکھ ٹن درآمدی چینی مارکیٹ میں لائی جا رہی ہے جو 90 روپے فی کلو میں دستیاب ہو گی، اس کے علاوہ 30 ہزار ٹن چینی لے کر ایک اور بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر پہنچ رہا ہے، وہ چینی بھی مارکیٹ میں لائی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ درآمدی چینی مختلف اسٹورز اور ٹرکوں کے ذریعے صارفین کو فراہم کرے جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز میں بھی چینی وافر مقدار میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ جتنے بڑے سیاسی گھرانے ہیں ان سب کی شوگر ملیں ہیں، اس کاروبار میں کوئی کشش ہے تبھی باقی کاروبار میں ناکام ہونے والے خاندان اس کاروبار میں ارب پتی بن جاتے ہیں، ہر سال گٹھ جوڑ کرکے چینی قیمت مقرر کی جاتی تھی، کرشنگ میں تاخیر کی جاتی تھی، چینی کی درآمد رکوائی جاتی تھی اور ڈیوٹیاں بڑھوائی جاتی تھیں، ہم نے چینی کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کی اور خام چینی کی درآمد کھولی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ شوگر ملوں کو اب کوئی برآمدی سبسڈی نہیں دی جائے گی، باقی صنعتوں کی طرح اس صنعت کو بھی طلب و رسد کی بنیاد پر چلنا چاہیے، حکومت کی پہلی ترجیحی کسان ہیں جن کا روزگار شوگر ملوں سے جڑا ہوا ہے، شوگر ملز مالکان کے ساتھ بھی زیادتی نہیں ہو گی لیکن انہیں بھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنے دیں گے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومتی اقدامات سے اگلے دو سے تین ہفتوں میں چینی کی قیمتیں تیزی سے کم ہو جائیں گی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سٹے بازی کے ذریعے چینی کی قیمت بڑھانے والوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے، گذشتہ روز کئی سٹہ باز پکڑے گئے ہیں جس کے بعد مارکیٹ میں صورتحال میں بہتری آئی ہے اور من مانی سے شوگر ملیں چلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
حماد اظہر نے کہا کہ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں چینی کی کھپت ساڑھے 4 لاکھ ٹن ہے اس میں سے ڈیڑھ لاکھ ٹن چینی ماہانہ صارفین استعمال کرتے ہیں، اس وقت ملک میں ایک لاکھ ٹن درآمدی چینی موجود ہے، 30 ہزار ٹن مزید آ رہی ہے جبکہ یوٹیلٹی اسٹورز کے پاس 25 ہزار ٹن چینی موجود ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے مختلف مقامات سے ذخیرہ کی گئی ہزاروں ٹن چینی برآمد کی ہے اور یہ چینی سرگودھا میں ٹرک کے ذریعے 90 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی گئی ہے۔