وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں آنے والی پریشانی کے ذمہ دار ہم خود ہیں، ہم نے امداد کے لیے پاکستان کا غلط تصور پیش کیا۔
وزارت خارجہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم نے پاکستان کی اُس تصویر کو اپنی زندگی میں دیکھا ہے جب پاکستان کا وزیر اعظم امریکا جاتا تھا تو امریکی صدر اس کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتا تھا، اس کے بعد ہم نے برے وقت بھی دیکھے۔
انہوں نے کہا کہ انسان کی زندگی سیدھی لکیر پر نہیں چلتی، اور میں اونچ نیچ آتی ہے، ہمارے ملک میں آنے والی پریشانی کے ذمہ دار ہم خود ہیں کسی اور کو ذمہ دار نہیں ٹھہرانا چاہیے، ہم نے خود کو استعمال ہونے دیا اور امداد کے لیے ملکی ساکھ کو قربان کردیا، صرف پیسے کے لیے عوامی مفاد کے خلاف خارجہ پالیسی بنائی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے 20 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کے لیے ایک خود ساختہ زخم تھا کیونکہ میں اس وقت فیصلہ سازوں کے قریب تھا، مجھے پتا ہے کہ اس وقت کیا خدشات تھے اور بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ خدشات پاکستان کے عوام سے متعلق نہیں تھے اور بدقسمتی سے مطمع نظر ڈالرز تھے‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ان فیصلوں کے اثرات پڑتے ہیں، یہ ایسا ہے کہ کینسر کا علاج ڈسپرین سے کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ اب دنیا کے سامنے پاکستان کی تصویر بہت مثبت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا جیسے بحران سو سال میں ایک بار سامنے آتے ہیں، ہم نے اس طرح کی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور اب بھی کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کا تصور مثبت ہے اور اس کی ایک مثال اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا حالیہ اجلاس ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اس کانفرنس میں جو ہمارا مقصد تھا وہ پورا ہوا ہے، تمام مسلم ملک اور اقوام متحدہ ہمارے مقصد کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم 15 اگست سے یہی کہہ رہے ہیں کہ طالبان کی حکومت آپ کو پسند ہو یا نہیں ہمیں انسانیت کے لیے کھڑے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے انسانی بحران ختم کرنے کا آسان حل یہ ہے کہ ان کے اثاثے بحال کر دیے جائیں اور ان کے بینکاری نظام میں رقم کا فلو شروع کر دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کو اپنے آپ پر یقین ہونے چاہیے، ملک چھوٹا یا بڑا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہم نے ایک ٹیم بن کر کام کیا اور او آئی سی کانفرنس کا کامیاب انعقاد ہوا، جب او آئی سی کا آئندہ اجلاس ہوگا تو اسے ہم اس سے بہتر انداز میں منعقد کریں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ملک میں صرف نظام ٹھیک کرنا ہے اور میرٹ کو اوپر لانا ہے، سب سے اہم قانون کی بالادستی ہے، کبھی کوئی قوم قانون کی بالادستی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی کیونکہ وہاں اشرافیہ قابض ہوجاتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو سب سے پہلے میرٹ ختم ہوجاتا ہے، مافیاز کنٹرول کر لیتے ہیں اور ملک آگے نہیں جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جدوجہد یہ ہے کہ کیسے ہم اپنی آبادی کو اوپر اٹھائیں جو اشرافیہ کے قابض ہونے کی وجہ سے نیچے چلی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے، ہمیں ابھی صرف کرنٹ کاؤنٹ خسارے کے مسئلے کا سامنا ہے، جیسے ہی ہم نے یہ مسئلہ حل کیا ملک تیزی سے ترقی کرے گا۔