افغان طالبان کی حکومت نے اپنے سالانہ بجٹ کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ افغان وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بیرونی امداد کے بغیر بجٹ تیار کیا گیا ہے۔
طالبان حکومت کی طرف سے بجٹ کی تیاری کی خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب افغانستان کو اقتصادی حوالے سے سخت پریشانیوں کا سامنا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق ملک کو افلاس اور ‘بھوک کے طوفان‘ کا سامنا ہے۔
افغان وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے اس مجوزہ بجٹ کا حجم نہیں بتایا تاہم ان کا کہنا تھا کہ سال 2022ء کے دسمبر تک کے لیے اس بجٹ کی تفصیلات جاری کرنے سے قبل کابینہ سے اس کی منظوری لی جائے گی۔
عالمی امداد کی بندش اور اثاثے منجمد
طالبان نے رواں برس 15 اگست کو جب کابل پر قبضہ کیا تو عالمی طاقتوں کی طرف سے افغانستان کے لیے مالی امداد کا سلسلہ روک دیا گیا۔ ساتھ ہی مغربی ممالک نے افغان حکومت کے اربوں ڈالرز کے وہ اثاثے بھی منجمد کر دیے جو ان کے ممالک میں موجود تھے۔
یہ صورتحال نازک اقتصادی صورتحال سے دو چار ملک افغانستان کے لیے مزید مشکلات کا سبب بنی ہوئی ہے اور اسی سبب طالبان امریکا سے بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کے منجمد اثاثوں کو جاری کرے
قبل ازیں افغان وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں بجٹ کے حوالے سے لکھا تھا، ”ہم اپنے داخلی ذرائع سے اس کے لیے رقم کی فراہم کی کوشش کر رہے ہیں… اور ہمیں یقین ہے کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘
گزشتہ بجٹ کا حجم
افغانستان کا سال 2021ء کا بجٹ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی رہنمائی میں تشکیل دیا گیا تھا جس میں بیرونی امداد 219 بلین افغانی (افغان کرنسی) جبکہ داخلی ذرائع سے ہونے والی آمدنی 217 بلین افغانی کا اندازہ لگایا گیا تھا تاہم اس کے باوجود یہ خسارے کا بجٹ تھا۔ اس وقت افغان کرنسی کی قدر ایک ڈالر کے مقابلے میں 80 افغانی تھی جبکہ پیر 13 دسمبر کو اس کی قدر گر کر ایک ڈالر کے مقابلے میں 130 افغانی تک پہنچ گئی تھی۔
افغان وزارت خزانہ کے ترجمان احمد ولی حقمل نے یہ تسلیم کیا کہ سرکاری اہلکاروں کو گزشتہ کئی ماہ سے ان کی تنخواہ نہیں ملی تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ان کے بقایا جات سال ختم ہونے سے قبل ادا کر دیے جائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملازمین کی تنخواہوں کے لیے ایک نیا پے اسکیل ترتیب دیا جا رہا ہے۔