پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس شروع، اپوزیشن کی عدم شرکت

اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے عدم شرکت کے باوجود حکومت کا بلایا گیا پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا ان کیمرا اجلاس شروع ہوگیا ہے۔

متحدہ اپوزیشن نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی۔

اس اجلاس میں مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف قومی سیکیورٹی پالیسی پر پریزنٹیشن دیں گے۔

کابینہ کے ایک سینیئر رکن نے میڈیاکو بتایا تھا کہ حکومت نے حزب اختلاف کی جماعتوں ساتھ کچھ غیر رسمی رابطے کیے تھے اور ان اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی، ان کے مطابق اپوزیشن نے اپنی شرکت وزیراعظم عمران خان کی حاضری سے مشروط کی ہے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس کے لیے قائد حزب اختلاف شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور متعلقہ وزارتوں کے حکام سمیت 50 سے زائد افراد کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی، اس اجلاس کا ایک نکاتی ایجنڈا قومی سلامتی پالیسی پر پریزنٹیشن ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کیا، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ فیصلہ اپوزیشن نے باہمی مشاورت کے بعد متفقہ طور پر کیا ہے۔

ان کے مطابق اس ان کیمرا اجلاس سے بائیکاٹ کی وجہ پارلیمان کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں اہم بلوں کو حکومت کی جانب سے بلڈوز کرنے اور اہم آئینی، قانونی، قومی اور سیکیورٹی معاملات پر حکومت کا ’مسلسل آمرانہ طرز عمل‘ ہے۔

اس بارے میں جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپوزیشن کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ گزشتہ 70 سالوں میں یہ پہلی حکومت ہے جو پارلیمان کے سامنے اپنی قومی سلامتی پالیسی پیش کر رہی ہے۔ ان کے خیال میں اپوزیشن کو کسی ایسے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے جو ملک کی سلامتی سے متعلق ہو۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے مشیر، خارجہ امور اور خطے کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی سلامتی پالیسی پیش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ بعد ازاں اس پالیسی کو منظوری کے لیے وفاق کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی سیکریٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ حکومت سے زیادہ متحدہ اپوزیشن قومی سلامتی کے معاملے کو اہمیت دیتی ہی، اسی وجہ سے اپوزیشن نے ماضی میں ایسی تمام بریفنگ میں شرکت کی ہے جبکہ وزیر اعظم آج تک ایسے ایک اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ افسوس ناک بات ہے کہ وزیر اعظم نے کورونا کے معاملے سمیت تمام اہم امور پر بلائے جانے والے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا۔

مشترکہ اپوزیشن نے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے بیان میں وضاحت کی تھی کہ اپوزیشن جماعتوں نے آئینی، قومی سلامتی اور دیگر اہم معاملات کے حوالے سے بہت سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا ہے اور وزیر اعظم کی غیر حاضری اور ’اہم قومی و عوامی معاملات سے ان کی مکمل لاتعلقی کے باوجود‘ اپوزیشن نے نہ صرف قوم سلامتی پر ہونے والی گزشتہ بریفنگز میں شرکت کی بلکہ متحدہ اپوزیشن کی قیادت نے اپنی تجاویز بھی پیش کیں۔

اپوزیشن کے مطابق یہ بدقسمتی ہے کہ اہم داخلی اور خارجی امور پارلیمان میں بحث کے لیے نہیں لائے جاتے اور حکومت، پارلیمان کو صرف ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ اس طرح کے حالات میں یہ ان کیمرا بریفنگ ایک حکومتی ’تماشہ‘ ہی ہوگی جس کا ملک اور عوام کو درپیش سنجیدہ مسائل اور ان کے حل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

اس کے علاوہ متحدہ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیران فیصلہ سازی کے لیے درکار معلومات اور اختیار کے علاوہ پوشیدہ حقائق سے بھی محروم ہیں۔

پی ڈی ایم اجلاس

دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کے سربراہان بھی آج ملاقات کریں گے جس میں اتفاق رائے سے حکومت مخالف مظاہروں کی حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔

پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے گزشتہ روز ملاقات میں حکومت مخالف مظاہروں کی مہم کے حوالے سے تجاویز تیار کی تھیں۔

ذرائع کے مطابق یہ تجاویز حتمی منظوری کے لیے پی ڈی ایم جماعتوں کے سربراہان کو پیش کی جائیں گی۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ کمیٹی نے اسلام آباد کی جانب فیصلہ کن لانگ مارچ کے علاوہ ملک بھر میں عوامی اجتماعات بھی منعقد کرنے کی تجویز دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں