اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے تم نے کل کی قانون سازی میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی ملکی سیاست میں گرفت کو اور مضبوط کر دیا ہے۔
پشاور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج کا مظاہرہ موجودہ ناجائز اور نااہل حکومت کی ناکام معاشی پالیسی کے خلاف اور قوم پر مہنگائی کے پہاڑ گرنے کے خلاف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے، یہ کسی کا کٹھ پتلی ہے، عوام کا نمائندہ نہیں ہے، یہ حکمران قوم پر مسلط ہیں، اگر ہمارے صوبے کے کچھ لوگوں نے ایک گناہ کیا ہے تو وہ اللہ کے حضور توبہ کریں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج لوگ اپنے بچوں کو بیچنے کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے آرہے ہیں، سندھ کا ایک پولیس اہلکار روڈ پر اپنے بچے کو گود میں لے کر کہتا ہے کوئی ہے خریدنے والا، آج لوگ اپنے بچوں کو نہر میں ڈالنے اور خود کشی کرنے والے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔
‘من حیث القوم ہماری ذمہ داری ہے ایسے حکمرانوں سے نجات دلائیں’
ان کا کہنا تھا کہ ہم من حیث القوم اس صورت حال کے ذمہ دار نہیں کہ قوم کو ایسے حکمرانوں سے نجات دلائیں، ان تین برسوں میں دو طرح کی قانون سازی کی گئی ہے۔
حکومت کی قانون سازی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک بین الاقوامی اداروں کی گرفت پاکستان پر مضبوط کی ہے، جو ہمارے ملک میں معاشی مشکلات کا سبب بنا ہے، تم نے سب کچھ مغرب کے لیے کیا ہماری تہذیب کو مغرب کے لےی تبدیل کرنے کی کوشش کی اور نوجوان نسل کو گمراہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ہماری معشیت کو مغربی اداروں کی گروی بنا دیا، آج پھر ایک نئی قانون سازی کی، اس قانون سازی کے نتیجے میں جہاں ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں، جہاں اس ملک میں عوام کے اختیار کی بات کرتے ہیں وہاں انہوں نے کل کی قانون سازی میں پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کی ملک کی سیاست میں گرفت کو اور مضبوط کیا ہے، تو یہ آمروں کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں عوام کے نہیں ہوسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، انہوں نے اس ملک میں اسلامی تہذیب و تمدن اور تشخص کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی ہے، آئین کی اسلامی حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، پھر ریاست مدینہ کے مقدس عنوان کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کون سا مقدس عنوان اور کبھی کون سا عنوان، میں بتانا چاہتا ہوں اب ان پردوں کے پیچھے کوئی نہیں چھپ سکتا، اب ہم نے تمہاری گریبان میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔
‘اسٹبلشمنٹ کو اپنی عزت عزیز ہے تو اس کے پیچھے سے ہٹ جائے’
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کو بتانا چاہتا ہوں اگر تمہیں اپنی عزت عزیز ہے، اپنا احترام عزیز ہے، پاکستان میں ایک قابل قدر ادارے کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دینا چاہتے ہو تو آپ کو اس کے پیچھے سے نکلنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک آپ اس کی پشت پر کھڑے ہیں، ہمارا پتھر آئے گا، اس کو لگے یا نہ لگے اسٹبلشمنٹ کو بتانا چاہتا ہوں تمھارے سینے پر لگے گا۔
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہےکسی کو مصلحتوں کی سیاست کمزور کردے، ہوسکتا ہے کسی کو حکومتوں کی مجبوریاں کمزور کردے، ہوسکتا ہے کسی کو اپنے مفادات کی کمزوریاں مجبور کردیں لیکن ہمیں نہ اقتدار کا لالچ ہے، نہ مفادات کی لالچ ہے، میدان میں نکلے ہیں اور اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک اس ناجائز حکومت کو سمندر برد نہ کر دیں گے۔
‘اسٹبلشمنٹ کی جانب سے اراکین کو فون کرکے دھمکیاں دی گئیں’
انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے کل پارلیمنٹ کو اپنا کھلونا بنایا اور ہم گواہ ہیں، تم نے حکمرانوں کی صفوں میں بیٹھے لوگوں کو ٹیلی فون کرکے دھمکیاں دی ہیں، اپنے نمائندوں کو بھیج کر انہیں دھمکیاں دی ہیں کہ اگر آپ اس اسمبلی کے اجلاس میں نہ گئے اور حکومت کے حق میں ووٹ نہ دیا تو یہ یہ کیس تمہارے خلاف ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تم نے حزب اختلاف کے اراکین کو فون کیے کہ اجلاس میں نہیں آنا، ووٹ استعمال نہیں کرنا، تمہارے ان مشکوک کردار کو ہم دیکھ رہے ہیں اس کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آپ کو کھلے میدان میں اپنا یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاست کرنی ہے تو آزادی کی طرف بڑھنا ہوگا، انہی سے آزادی حاصل کرنی ہے، ہم فوج کو بطور ادارہ احترام دینا چاہتے ہیں، ہم فوج کو بطور ادارہ غیر جانب دار دیکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کبھی نہیں چاہتے فوج جیسے ادارے کو عام جلسوں میں زیر بحث لایا جائے لیکن اس کا دار و مدار ہم پر نہیں بلکہ خود ان کے کردار پر اس کا دار ومدار ہے۔
انہوں نے کہا کہ کشمیر کو بیچ دیا، ایسا بیچا کہ ڈکار بھی نہیں لیا اور کل کشمیر کو بیچا اور پہلے کہا تھا مودی کامیاب ہوگا تو مسئلہ کشمیر حل ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کو فوجی عدالت نے سزائے موت دی ہے، پاکستان کا دشمن، پاکستانیوں کا قاتل، پاکستانی فوجیوں کا قاتل، آج اس کے لیے اسمبلی میں قانون سازی کی جارہی ہے تاکہ وہ عدالتوں سے رجوع کرکے ضمانت لے سکے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ امیدیں وابستہ کی گئیں کہ شاید یہاں دودھ اور شہد کی نہریں لائے گا لیکن ہمارے محل میں اور چھوٹی سی ندی میں بہتے ہوئے پانی کو بھی خشک کردیا۔