کیمیائی آختہ کاری کی سزا، سول سوسائٹی نئے قانون کے خلاف

پاکستان میں زنابالجبر کے مجرموں کو کیمیائی طریقے سے آختہ کرنے کے قانون پر مذہبی حلقوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور طبی ماہرین بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا اس قانون سے اس سنگین جرم کا سدباب ہو سکے گا؟

اس بل کے متن کے مطابق کیمیائی کاسٹریشن یعنی آختہ کرنے یا ’نامرد‘ بنا دینے کے طریقہ کار کو وزیراعظم پاکستان کے متعین کردہ ضوابط کے تحت بنایا گیا ہے اور اس کا مقصد جنسی زیادتی کے مجرموں کو جنسی عمل کرنے کے لیے ناکارہ بنانا مقصود ہے۔

 یہ سزا خاص مدت کے لیے بھی ہو سکتی ہے یا جو بھی عدالت اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ کیمیائی طریقے سے کسی مجرم کو آختہ کرنے کے اس عمل میں انتظامیہ دوائیں فراہم کرے گی، جس سے میڈیکل بورڈ کے ذریعے متعلقہ مجرم کو آختہ کیا جائے گا۔ صرف سول سوسائٹی ہی اس بل کی مخالفت نہیں کر رہی بلکہ جماعت اسلامی سمیت ملک کی کچھ مذہبی جماعتیں بھی اس قانون کے خلاف ہیں۔

صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے

پاکستان میں ہر سال کئی افراد کو صرف انتقام کی آگ میں جل کر لوگ قتل کر دیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ اس طرح کے قانون سے انتقامی سوچ مزید پروان چڑھے گی اور کیمیائی طریقے سے، جن  مجرموں کی آختہ کاری کی جائے گی، ان میں انتقامی رویہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی نامناسب قانون ہے کیونکہ اس طرح اگر کسی شخص کو کیمیائی طریقے سے بانجھ بنایا گیا تو اس میں انتقام کا جذبہ بھڑک اٹھے گا۔ قوی امکان اس بات کا ہے کہ وہ زنا بالجبر کی شکار ہونے والی خاتون سے کوئی بدلہ لے یا اس کی فیملی کو نقصان پہنچائے۔ اس سے مسائل اور بڑھیں گے اور صورت حال مزید پیچیدہ ہو گی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ میڈیکل سائنس میں، جو اخلاقیات کے پہلو ہیں، اس کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا اور اس قانون کو وسیع پیمانے پر بحث کے بغیر ہی پاس کر دیا گیا، ”طبی اخلاقیات میں آپ کسی شخص کی فطری صلاحیت کو صرف اسی وقت ہی ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب اس سے اس شخص کو کسی بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو گینگرین ہو جائے تو اس کا انگوٹھا کاٹنا پڑتا ہے یا پیر کاٹنا پڑتا ہے یا پوری ٹانگ کاٹنی پڑتی ہے تاکہ اس کی جان بچائی جا سکے لیکن اس قانون میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے۔‘‘

اصل مسئلہ اصلاحات کا ہے

حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ اس کے دور رس نتائج مرتب نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یقیناﹰ اس قانون سے وقتی طور پر مجرمان میں خوف ہو گا لیکن اس قانون کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ اصل مسئلہ صرف سزائیں دینا نہیں بلکہ بڑے پیمانے پر اصلاحات لانا ہیں، جن کی اشد ضرورت ہے۔‘‘کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پولیس اور عدالتی نظام میں بہتری لائے بغیر اس جرم کے خلاف نہیں لڑا جا سکتا۔ مختاراں مائی بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں، ”میرے خیال میں تحصیل کی سطح پر اے این اے لیبز بننی چاہئیں۔ اس وقت پورے پنجاب میں صرف ایک لیب ہے۔ تھانوں میں بڑی تعداد میں خواتین تفتیشی افسران کو مقرر کیا جانا چاہیے اور خواتین پولیس اہلکاروں کی تعداد کو بھی بڑھایا جانا چاہیے اور عدالتی عملے میں بھی خواتین کی تعداد زیادہ ہونا چاہیے تاکہ ان جرائم کا سدباب کیا جا سکے۔‘‘

’غیرانسانی سزا‘

پاکستان میں کئی قوانین کو ماضی میں بین الاقوامی تنظیمیں غیر انسانی قرار دیتی رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں سزائے موت سمیت ملک میں رائج کئی سزاؤں کی مخالف ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنان بھی ان سزاؤں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

انسانی حقوق کی کارکن انیس ہارون کا کہنا ہے، ”ہم سزائے موت اور ان جیسی سزاؤں کو غیر انسانی سمجھتے ہیں اور ہم نے سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے بھی یہ کہا تھا کہ اس بل میں بہت سارے اعتراضات ہیں، جن کو دور کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں عدالتوں کا نظام بہت برا ہے اور ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ تین افراد کو سزائے موت دی گئی، وہ سپریم کورٹ گئے اور جب تک سپریم کورٹ نے انہیں بے گناہ قرار دیا تو انہیں پہلے ہی سزائے موت دی جا چکی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کے تحت اگر کسی کو غلط سزا دی جاتی ہے اور اس پر عمل بھی ہو جاتا ہے تو پھر اس کا ازالہ کیسے کیا جائے گا؟‘‘

لیکن ملک میں کئی حلقے سخت سزاؤں کے حامی بھی ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے مطالبات اٹھتے رہے ہیں کہ اس طرح کے جرائم میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی دی جائے۔ وزیراعظم کے سابق مشیر برائے فوڈ سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ کا کہنا ہے کہ اس قانون سے اس طرح کے جرائم کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس قانون کے بعد نہ صرف مجرم کے دل میں سزا کا خوف ہو گا بلکہ اس کا ایک سماجی پہلو بھی ہے کہ وہ نشان عبرت بن جائے گا اور سماج کے خوف کی وجہ سے بھی اس طرح کے جرائم میں کمی آئے گی۔‘‘

بااثر افراد کے لیے قانون

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے جرائم میں زیادہ تر بااثر افراد ملوث ہوتے ہیں، ”ہمارے ملک میں جاگیردار مزارع کی بیٹی کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے جبکہ چوہدری بھی کسانوں اور غریب طبقات کے ساتھ ظلم کرتا ہے اور ان کی عورتوں کو بازار جنس سمجھتا ہے۔ اکثر لوگ جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور کچھ عرصے بعد باہر آ جاتے ہیں۔ بہت سارے جرائم رپورٹ بھی نہیں ہوتے لیکن اب ایسا نہیں ہو گا اس قانون کا اطلاق ہو گا اور اس طرح کے جرائم کی بالکل روک تھام کی جائے گی، اس کے لیے حکومت نے سارے ممکنہ انتظامات بھی کیے ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں