عمران خان حکومت اتنی بھی کمزور نہیں نکلی

ضمنی ایجنڈے سمیت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اکتیس بلوں کی منظوری سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے جب کہ اپوزیشن نے ان کی بھرپور مخالفت کی تھی۔

اس فتح سے یہ تاثر بھی زائل ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کمزور ہے اور اپنی مدت پوری نہیں کر پائے گی۔ سینیٹ میں قائد ایوان اور پی ٹی آئی کے رہنما شہزاد وسیم نے آج کے دن کو ”تاریخی‘‘ قرار دیا ہے جبکہ سینیٹر فیصل جاوید نے سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے سے بل پاس ہونے پر انہیں مبارک باد دی ہے اور یہ کہا ہے کہ عمران خان نے وہ وعدہ پورا کر دکھایا، جو انہوں نے سمندر پار پاکستانیوں سے کیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا کہ آج حزب اختلاف کو شکست ہوئی ہے۔ ان کا دعوی تھا کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے۔

حزب اختلاف کا ردعمل

پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے الیکشن ترمیمی بل سمیت دیگر بلوں کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ شہباز شریف کا دعوی تھا کہ آج کے اجلاس میں قانون سازی کو بلڈوز کیا گیا ہے اور اس ماحول میں قانون سازی نہیں ہو سکتی۔

 اسلام آباد میں اسمبلی کے باہر بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود اور امیر حیدر ہوتی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ اجلاس میں اپوزیشن کے ووٹوں کو کم ظاہر کیا گیا، اپوزیشن نے اعتراض بھی کیا، جس کو اہمیت نہیں دی گئی۔

عمران خان پھر مضبوط

واضح رہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی تاریخ بدلی تھی اور اجلاس ملتوی بھی کیا تھا، جس کی وجہ سے کئی حلقوں میں یہ سرگوشیاں ہو رہی تھیں کہ عمران خان کی حکومت کمزور ہے اور اتحادی عمران خان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

 کئی سیاسی پنڈتوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ اگر عمران خان کو پارلیمنٹ میں شکست ہوئی تو یہ ان کی حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو گا۔ کچھ لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ایسی صورت میں عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔

بہت سارے تجزیہ نگار یہ کہہ رہے تھے کہ ان بلوں کا منظور ہونا ہی مشکل ہو گا تاہم ایسا نہیں ہوا۔ معروف سیاست دان اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ اس کے بعد عمران خان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ان بلوں کی منظوری اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ملک کے مقتدر حلقے غیر جانبدار ہیں، جو یقیناﹰ سیاست کے لیے اچھی بات ہے لیکن اس ساری صورتحال سے عمران خان بہت مضبوط ہو کر ابھرے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ تحریک انصاف کا ورکر ان کے ساتھ ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے بعد یہ خبر بھی دم توڑ جائے گی کہ عمران خان اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں گے، ”ان بلوں کی منظوری سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے اتحادی اس کے ساتھ ہیں اور عمران خان ان کو اپنے ساتھ لے کر چلیں گے اور اپنی مدت پوری کریں گے۔‘‘

’’اثر و رسوخ استعمال ہوا‘‘

تاہم کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ مقتدر حلقے بحیثیت مجموعی جانبدار رہے لیکن ایک مخصوص بل تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اتحادیوں کے متضاد بیانات نے یہ تاثر پیدا کیا تھا کہ شاید یہ بل منظور نہیں ہو پائیں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ق لیگ کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی نے کچھ دنوں پہلے یہ بیان دیا کہ حکومت کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ عمران خان کے ساتھ چلتے ہوئے گھبرا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے لوگوں نے بھی متضاد بیانات دیے، جس کے بعد کچھ حلقے بیچ میں آئے۔ یقیناﹰ سب کو پتہ ہے کہ کون ہیں اور انہوں نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اور ان لوگوں کو بل منظور کرانے کے لیے راضی کیا۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے بل کا تعلق حکومت کی حمایت سے نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی طور پر ریاستی مفادات کے حوالے سے ہے، ”تو میرا خیال ہے کہ مقتدر حلقے غیر جانبدار نہیں تھے لیکن انہوں نے حکومت کی حمایت نہیں کی، دراصل وہ چاہتے تھے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختاری کے حوالے سے بل منظور ہو کیونکہ اس بات کا تعلق ریاستی مفادات سے ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے قرض نہیں ملے گا تو ملک کی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا اور پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا تو مقتدر حلقوں نے حمایت حکومت کی نہیں بلکہ ریاستی مفادات کی کی ہے۔‘‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کچھ بھی کہے لیکن ان بلوں کا بحیثیت مجموعی تاثر یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت مضبوط ہوئی ہے اور وہ اپنی مدت پوری کرنے کی پوزیشن میں آ گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں