سائنسدانوں نے انسانی قد اور بلوغت کا ایک راز دہائیوں بعد جان لیا

سائنسدانوں نے انسانی دماغ میں ایک ایسے ریسیپٹر کو دریافت کیا ہے جو لوگوں کے قد اور بلوغت جیسے افعال کو ریگولیٹ کرتا ہے۔

یہ بات ایک نئی تحقیق سے سامنے آئی۔

کیمبرج یونیورسٹی، کوئین میری یونیورسٹی، برسٹل یونیورسٹی، مشی گن یونیورسٹی اور وینڈربیلٹ یونیورسٹی کی اس مشترکہ تحقیق میں ایم سی 3 آر نامی ریسیپٹر کو دریافت کای گیا جو تولیدی نظام اور نشوونما کو کنٹرول کرتا ہے۔

یہ ریسیپٹر سسٹم ایسے مخصوص ہارمونز کو خارج کرتا ہے جو انسانی نشوونما اور بلوغت کے عمل کو ریگولیٹ کرتا ہے۔

محققین نے دریافت کیا کہ جب ریسیپٹر ٹھیک سے کام نہیں کرتا تو لوگوں کا قد چھوٹا رہ جاتا ہے اور وہ بالغ بھی دیر سے ہوتے ہیں۔

20 ویں صدی میں برطانیہ میں ایک فرد کے اوسط قد میں اوسطاً 3.9 انچ کا اضافہ ہوا جبکہ دنیا کے کچھ ممالک میں یہ اضافہ 7.8 انچ ریکارڈ ہوا۔

اس دریافت سے ایسی ادویات کو تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جو مسلز کے حجم کو بڑھانے اور نشوونما بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوسکیں گی۔

تحقیق کے لیے 5 لاکھ افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان میں ایسے افراد ھبی شامل تھے جن کے ریسیپٹر میں ایسی میوٹیشنز دریافت ہوئیں جن کے نتیجے میں وہ دیگر کے مقابلے میں 4.7 ماہ تاخیر سے بالغ ہوئے۔

ایسے افراد میں کچھ ٹشوز کی تعداد بھی کم ہوتی ہے۔

اس دریافت سے ثابت ہوتا ہے کہ دماغ غذائی اجزاء کو محسوس کرسکتا ہے اور اس کی بنیاد پر قد و قامت اور تولیدی تشوونما کے حوالے سے فیصلے کرتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ غذائی اجزا کو نشوونما اور بلوغت کے حوالے سے دماغی راستوں کی نشاندہی سے عالمی سطح پر لوگوں کے قد میں اضافے اور بلوغت کی اوسط عمر کم ہونے کی وضاحت ہوتی ہے جو ایک صدی سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہوا تھا۔

ان کا ماننا ہے کہ اس دریافت سے مسلز کے حجم اور نشوونما کو بڑھانے کے لیے ادویات کو تیار کرنے میں مدد مل سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ نتائج کے ممکنہ طور پر بچوں کی نشوونما اور تولیدی صحت سے ہٹ کر بھی بڑے پیمانے پر اثرات مرتب ہوسکیں گے کیونکہ متعدد دائمی امراض بھی مسلز کے حجم میں کمی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں