کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا 22 اکتوبر کو شروع ہونے والے لانگ مارچ 30 اکتوبر کو وزیر آباد کے مقام پر اس وقت ختم ہوا جب حکومت کی تین رکنی کمیٹی نے اس تنظیم کے سربراہ سعد حسین رضوی کو لاہور جیل سے اسلام آباد لا کر مذاکرات کیے اور ایک معاہدہ طے پایا۔
اس معاہدے کو تاحال خفیہ رکھا گیا ہے اور اس کی تفصیلات نہ تنظیم کی طرف سے منظر عام پر لائی گئی ہیں اور نہ سرکاری طور پر۔ تاہم سرکاری اور ٹی ایل پی سے منسلک ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ گرفتار لیڈروں اور کارکنان کی رہائی، ان کے نام فورتھ شیڈول سے نکالنا اور تنظیم پر عائد پابندی ہٹانا اس معاہدے کے نکات میں شامل ہیں۔مذاکرات کامیاب ہونے اور معاہدہ طے پانے سے قبل لاہور سے لے کر وزیر آباد تک ٹی ایل پی کے حامیوں اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں اور ان لڑائیوں میں پانچ پولیس اہلکار بھی جان کی بازی ہار گئے اور ٹی ایل پی کے کچھ کارکنان بھی۔
اس دوران کئی حکومتی وزراء ٹی ایل پی پر شدید تنقید بھی کرتے رہے اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ ٹی ایل پی کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان جیسی شدت پسند تنظیموں کے ساتھ کیا گیا۔کالعدم ٹی ایل پی سے منسلک واٹس ایپ گروپس
وزیر اطلاعات کی جانب سے ٹی ایل پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس جماعت کو سوشل میڈیا پر ’انڈین اکاؤنٹس‘ کی بھی حمایت حاصل رہی ہے۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ٹی ایل پی سے منسلک ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کے احکامات جاری کیے گئے تھے جو سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد شیئر کررہے تھے۔اردو نیوز کو موصول ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق وفاقی تحقیقاتی اداروں نے 27 اور 28 اکتوبر کو ملک بھر میں 74 چھاپے مارے جس کے نتیجے میں 30 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
ایف آئی اے کی 61 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے نے ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے میں ’بیرونی ہاتھوں‘ کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے۔
’تحقیقات اور متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خصوصاً واٹس ایپ گروپوں کے تجزیے کے دوران انکشاف ہوا کہ بیرون ملک رجسٹرڈ نمبرز اشتعال پھیلانے اور کالعدم تنظیم کی پذیرائی میں ملوث ہیں۔‘
ٹی ایل پی کے حوالے سے تحقیقات پر ایک سوال کے جواب میں ایف آئی اے کے افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ادارے کے افسران نے تحقیقات کے دوران کئی واٹس ایپ گروپس کو جوائن کیا اور وہاں سے نمبرز نکال کر تفتیش کو آگے بڑھایا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا معاہدے کے بعد گرفتار کیے گئے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے والوں کو چھوڑدیا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ٹوئٹر ٹرینڈز
کالعدم ٹی ایل پی کے لانگ مارچ کے دوران سوشل میڈیا خصوصاً ٹوئٹر پر اس تنظیم کی حمایت میں کئی ’ہیش ٹیگز‘ چلائے گئے جن میں ’معاہدہ پورا کرو سفیر کو نکالو‘ اور ’پی ٹی آئی گورنمنٹ ٹیررسٹ‘ سرفہرست رہے۔
ٹرینڈز کے ڈیٹا کے مطابق ’معاہدہ پورا کرو سفیر نکالو‘ ہیش ٹیگ میں 22 اکتوبر سے 31 اکتوبر تک 11 لاکھ سے زائد ٹویٹس اور 10 لاکھ سے زائد ری ٹویٹس کی گئیں۔
ایک اور ہیش ٹیگ ’پی ٹی آئی گورنمنٹ ٹیررسٹ‘ کے ہیش ٹیگ میں 40 ہزار ٹویٹس کی گئیں اور 35 ہزار سے زائد ری ٹویٹس کی گئیں۔
اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے کالعدم ٹی ایل پی کے سوشل میڈیا ٹیم کے اراکین کو سوالات بھیجے گئے لیکن اس رپورٹ کے پبلش ہونے تک ان کی جانب سے جوابات موصول نہیں ہوئے۔
تاہم ٹی ایل پی کے ترجمان سجاد سیفی نے میڈیاسے بات چیت کرتے ہوئے ان تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ ان کا ’کوئی اکاؤنٹ پاکستان سے باہر سے نہیں چلایا جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن علی محمد خان پہلے ہی وضاحت دے چکے ہیں کہ ’نہ ہمیں (ٹی ایل پی) کو ئی بیرونی فنڈنگ ہے اور ہمارے خلاف باہر سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے کے الزامات بھی غلط ہیں۔‘
سجاد سیفی کا مزید کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کی سوشل میڈیا ٹیم میں ’پڑھے لکھے گرافک ڈیزائنرز، ویب ڈیولپرز اور دیگر رضاکار شامل ہیں۔‘اس تنظیم کے سوشل میڈیا کو مضبوط بنانے کے پیچھے کون؟
نومبر 2020 میں پاکستانی ٹی وی چینل کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ سعد حسین رضوی کے دوست سلمان نے بتایا تھا کہ سعد حسین رضوی دیگر طالب علموںسے ذرا مختلف ہیں اور اپنے والد (خادم حسین رضوی) کا پیغام آگے بڑھانے میں سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
واضح رہے اس تنطیم کے بانی خادم حسین رضوی گذشتہ سال انتقال کر گئے تھے اور ان کی تنظیم کی شوریٰ نے 26 سالہ سعد حسین رضوی کو نیا سربراہ منتخب کیا تھا۔
سلمان نے بتایا تھا کہ پہلے ٹی ایل پی اور اس کے اراکین کے اکاؤنٹس فیس بک پر تو موجود تھے لیکن انہیں ٹوئٹر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔