اکتوبر 2021 کو آئی ایس پی آر نے ایک پریس رلیز جاری کی 6 جس کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو ڈائرکٹر جنرل آئی آیس آئی مقرر کیا گیا ہے۔اس پریس ریلیز کا نمبر 166 ہے اب اس پریس ریلیز کو سات دن گذر چکے ہیں اور ابھی تک وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے جنرل ندیم احمد کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو پریس ریلیز 165 کے مطابق کور کمانڈر پشاور لگا دیا گیا ہے ۔جنرل فیض حمید کو 17 جوں 2011 کو ڈی جی آئی ایس آئی لگایا گیا تھاجو جنرل عاصم منیر کی جگہ پر ڈی جی آئی ایس آئی لگے تھے،جنرل عاصم منیر صرف 8 ماہ ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔
چیف اف آرمی سٹاف کا تقرر اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم پاکستان کا اسحقاق ہے۔ عام طور پر چیف آف آرمی سٹاف نامزدگی کرتا ہے اور وزیر اعظم اسکو انڈورس کر دیتا ہے ۔اس بار کہانی کچھ الگ نظر آئی رہی ہے ابھی تک وزیر اعظم نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔
اب دیکھنا یہ ہے عمران خان جنرل قمر جاوید باجوہ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہیں یا وہ اس فیصلے کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تو زیادہ مرتبہ وردی والے شیروانی والے پے بھاری رہے ہیں۔ جنرل ایوب، جنرل ضیا، جنرل مشرف اور عبدلوحید کاکڑ نے وہ منوایا جو انہوں نے چاہا۔ صرف دو بار ایس ہو جب چیف آف آرمی سٹاف کو انکے عہدے سے الگ کیا گیا وزیر اعظم کی خواہش پے۔جناب ذوالفقار بھٹو نے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل گل حسن کو اپنے عہدے سے الگ کر دیا۔ اور ایک بار نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت کو انکے عہدے سے الگ کر دیا ۔ نواز شریف نے جنرل مشرف کو ہٹانے کی کوشش کی اور خود جیل چلے گئے۔ اب جو بحران سامنے آرہا ہے اس کا انجام کیا ہوگا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
اب اس مسئلے پر اپوزیشن کا کردار بڑا دلچسپ ہے۔ مولانا فضل الرحمان جو پہلے فوج پر کھل کر تنقید کرتے رہے ہیں انہوں نے عمران خان پر بڑی تنقید کی ہے۔ اسی طرح شہباز شریف نے بھی فوج کی حمایت اور عمران کی مخالفت کی ہے۔ابھی پیپلز پارٹی کا موقف سامنے نہیں آیا۔ موسم بدل رہا ہے اور موسم کی تبدیلی کے ساتھ کچھ اور تبدیلی بھی ہو سکتی ہے۔
ابھی تک تو ہم یہی سنتے آئے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے مگر اس بار ایسا نہیں لگ رہا شاید ایک فریق پیج کے ہیڈ پر ہے اور دوسرا باٹم پر ، ایک ہی پیج پر ہوتے ہوئے فاصلہ کافی زیادہ ہے۔ایک پیج پر کافی لائن ہوتی ہیں۔ لگتا ہے پیج ایک ہے مگر لائن الگ الگ ہے۔عمران خان نے اپنی تقریر میں حضرت عمر اورحضرت خالد بن ولید کا واقعہ بیان کیا ہے خالد بن ولید کو انکے عروج کے دور میں حضرت عمر نے سپہ سالار کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ شاید ابھی عمران خان مسلم تاریخ میں عباسیوں پر نہیں پہنچے ۔ ورنہ انکو معلوم ہوتا کئی عباسی خلفا ترک سپہ سالاروں نے اپنے عہدے سے اتار دئے تھے۔ ابھی مغل تاریخ بھی انکی نظر سے نہیں گزری ورنہ انکو معلوم ہوتا ۔ جب نظام الملک دکن کا گورنر طاقتور تھا تو وہ فیصلہ کرتا تھا کہ دہلی کے تخت پر کس نے بیٹھنا ہے۔ جناب وزیر اعظم تو شاید ترک تاریخ بھی یاد نہیں کیسے ینی چری سپاہیوں کا کماندار فیصلہ کرتا تھا کس نے سلطان بننا ہے۔ طاقت کسی عہدے میں نہیں شخص میں ہوتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم ابھی تک حکومت کو کرکٹ کا کھیل سمجھ رہے ہیں۔کرکٹ میں صرف 11 کھلاڑی ہوتے ہیں اور 11 مخالف کھلاڑی ۔22 بندے کھیل کا حصہ اور دو ایمپائر۔ حکومت سرکس کے تنے ہوئے رسے پر چلنے سے بھی مشکل کام ہے جہاں آپ نے اپنا توازن بھی قائم رکھنا ہے اور رسہ عبور بھی کرنا ہے اگر تھوڑا سا بھی ڈگمگائے تو نیچے بھوکے شیر پھیر رہے ہیں۔ اقتدار کا راستہ بڑا ظالم ہے اس میں تیسری آپشن نہیں ہے تخت یا تختہ۔ہر انسان کو اپنی کمزوری اور طاقت کا خیال رکھنا چاہئے ۔ وزیر اعظم کی اپوزیشن کے ساتھ ان بن بہت زیادہ ہے انکے اپنے ساتھی بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ عوام کی اکثریت مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے۔ایک بات کی بار بار تکرار انسان کو بری لگنے لگتی ہے ۔ ابھی تین سال سے عوام کرپشن کا گیت سن رہے ہیں۔ حکومت کہیں نظر نہیں آتی۔ محکمہ مال میں پہلے صرف پٹواری تھا اب وہاں وکیل بھی موجود ہے اور کمپیو ٹر والہ عملہ بھی۔ پہلے کام ایک جگہ رشوت دیکر ایک دن میں ہو جاتا تھا اب دو تین جگہ پیسے دیکر دو تین دن میں ہو جاتا ہے یہی تبدیلی آئی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بات بات پے ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں ۔ انکو شاید یہ علم نہیں جو مدینہ والے کے ساتھ تھی وہ اب سب کچھ بدل کر مدینہ والے کے ساتھ ہوئے تھے۔ اتنا کچھ بدل جانے کے بعد بھی حضور کی وفات سے تیس سال بعد اموی ملوکیت قائم ہو گئی تھی۔ کبھی کھبی مجھے ڈر لگتا ہے کہیں ہم مدینہ کی تلاش میں کوفہ اور دمشق نہ پہنچ جائیں۔ پھر بغداد بھی تو آتا ہے جس پر ہلاکو خان کا قہر نازل ہو گیا تھا۔
خدا کرے میرے خدشات باطل ہوں تو موسم کی تبدیلی کسی خوشگوار منظر نامہ کو لے آئے مگر فی الحال اثار ایسے نہیں ہیں۔ جب شہد کی مکھی چھتے سے اڑتی ہے اگر وہ جنوں میں ہو تو وہ شہد لیکر نہیں آتی بلکہ کسی نہ کسی کو کاٹ کر پلٹتی ہے۔ ابھی صرف تین سال ہوئے ہیں ابھی دو سال کا عرصہ باقی ہے وہ جو کہتے ہیں ہنوز دلی دور است
امید کرنی چاہئے کہ دونوں جانب سے صبر کا دامن نہ چھوٹے ورنہ بہت سے لگڑ بگڑ تو انتظار میں ہوتے ہیں کوئی مرے تو ہمارا کھانا چلے۔