امریکی سینیٹ میں پیش کردہ پاکستان سے متعلق بل نے خطرے کی گھنٹی بجادی

اسلام آباد: سقوطِ کابل سے پہلے اور بعد میں افغانستان میں پاکستان کے مبینہ کردار کا جائزہ لینے کے لیے امریکی سینیٹ میں پیش کردہ بل نے پارلیمان کے ایوانِ بالا میں خطرے کی گھنٹی بجادی۔

پاکستان مخالف بل کا مقصد مختلف ممالک پر پابندیاں لگانا اور انہیں سزا دینا ہے، جس کا معاملہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما و قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ کی چیئرپرسن شیری رحمٰن نے کہا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے جلد بازی میں انخلا کے بعد پاکستان نے شدید خطرے کا سامنا کیا ہے۔

22 ریپبلکن سینیٹرز کی جانب سے پیش کردہ ‘افغانستان انسداد دہشت گردی، نگرانی اور احتساب بل’ کا حوالہ دیتے ہوئے شیری رحمٰن نے افسوس کا اظہار کیا کہ امریکا نے طالبان کے ساتھ براہِ راست معاہدہ کر کے افغانستان چھوڑا، پھر بھی وہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے’۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل اس سے برا ہے جو پہلے ہوچکا ہے۔

بل میں براہ راست پاکستان کو ہدف بنانے کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ امریکی انتظامیہ کا پالیسی بل نہیں ہے، لیکن یہ اہم ہے کیونکہ یہ اہم لوگوں کو جمع کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے خلاف زہریلے جذبات عروج پر پہنچنے کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے جسے ہم میں سے کئی لوگوں نے واپس پلٹانے کے لیے بہت محنت کی تھی۔

یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ اسمارٹ پالیسی چیلنجز کی پیش گوئی کرنے اور ان سے اتحاد اور عقلی ردعمل سے نمٹنے کے بارے میں تھی، انہوں نے کہا کہ خطرات سے نمٹنے کے لیے کم از کم ایک آغاز کیا جانا چاہیے۔

بل کے سیکشن 202 میں براہ راست پاکستان کا تذکرہ کیا گیا ہے اور 2001 سے 2020 کے درمیان طالبان کے لیے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر بشمول حکومت پاکستان کی حمایت کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ وہ واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی، لیکن یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے کہ کسی نے اجتماعی ردعمل کی تشکیل کے لیے اس معاملے کو پارلیمنٹ کے سامنے نہیں رکھا اور نہ ہی نقصان دہ اور غلط معلومات کو مسترد کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے میں کہ جب تمام ممالک سے عزت نفس کے ساتھ رابطہ رکھنا ضروری ہے، خاص کر امریکا جیسی ناراض سپر پاور جو خود افغانستان پر اپنے 20 برسوں کے قبضے سے پریشان ہے، ہم اپنے آپ کو بااختیار بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟

بات کو جاری رکھتے ہوئے شیری رحمٰن نے کہا کہ دوطرفہ خارجہ پالیسی پر پارلیمنٹ کو متحد کرنے کے بجائے افغانستان میں تبدیلی، انسانی بحران اور اس کے ردعمل پر پارلیمان کا کبھی اجلاس نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں افغانستان پر مشترکہ اجلاس ہو رہے ہیں لیکن پاکستان کی حکومت پارلیمنٹ سے رابطہ کرنے سے انکار کر رہی ہے۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ قومی اتحاد، جو خارجہ پالیسی کا پہلا قدم ہونا چاہیے تھا، معدوم ہے اور پی ٹی آئی حکومت آئین اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جنگی بیانیے میں مصروف ہے۔

شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے دوست ہیں، کسی خاص گروپ کے ترجمان نہیں، ہمیں ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جن سے ملک کو نقصان پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے قربانی کا ذکر کیا، جی ہاں، یہ درست ہے لیکن یہ کہہ کر اس قربانی کا مذاق کیوں اڑائیں کہ ہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسی تنظیموں کو عام معافی دیں گے جنہوں نے نہ صرف ہماری دو بار منتخب ہونے والی وزیر اعظم بینظیر بھٹو بلکہ آرمی پبلک اسکول کے بچوں اور ہمارے بہت سے بہادر فوجیوں کو بھی شہید کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی جانب سے سنجیدہ، غور و فکر کے ساتھ اور باخبر انداز اپنانے کی ضرورت ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی صورتحال پر بات چیت کی ضرورت ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں