امریکہ کے اعلیٰ فوجی عہدیدار نے افغانستان سے انخلاء کا دفاع کرتے ہوئے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ابتدائی مشکلات کے باوجود یہ کوشش ہماری توقعات سے بہتر رہی۔
امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خاتمے اور افغانستان سے طیاروں کے ذریعے تمام امریکیوں سمیت افغان اتحادیوں کو نکالنے میں ناکامی پر تنقید ہو رہی ہے، کیونکہ وہاں انخلا کے منتظر باقی رہ جانے والے افراد کو طالبان کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خطرے کا سامنا ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے منگل کو سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ انخلا اتنے ہی بہتر انداز سے کیا گیا، جس قدر ممکن ہو سکتا تھا، اور یہ کہ دنیا کی کوئی دوسری فوج یہ کام اس سے بہتر انداز میں نہیں کر سکتی تھی۔
انہوں نے کمیٹی کے ارکان کو بتایا کہ “یہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا فضائی انخلا تھا جسے صرف 17 دنوں میں مکمل کیا گیا۔ ہم نے 70،000 سے 80،000 افراد کو نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا، جب کہ ہم نے 124،000 سے زیادہ افراد کو وہاں سے نکالا۔”
آسٹن نے مزید کہا،”کیا یہ ہر اعتبار سے درست تھا؟ یقیناً نہیں۔ طیاروں کے ذریعے انخلا کے پہلے دو دنوں کو “مشکل” قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کے غیر متوقع طور پر تیزی سے قبضے کے بعد ایئر پورٹ پر بہت بڑا ہجوم جمع ہو گیا تھا
انہوں نے کہا، “ہم نے اتنی تیزی سے بہت سے لوگوں کو کابل سے باہر منتقل کیا کہ افغانستان سے باہر عارضی قیام کی تنصبات پر موجود انتظامات اور لوگوں کی سکریننگ کے لیے مسائل کھڑے ہو گئے۔
سیکرٹری دفاع نے 26 اگست کو ہونے والے خودکش بم دھماکے پر بھی افسوس کا اظہار کیا جس میں کابل کے ہوائی اڈے پر 13 امریکی فوجی اہل کار اور 169 افغان شہری ہلاک ہوئے تھے اور اس کے کچھ دن بعد ایک اور واقعہ کے دوران ایک ڈرون حملے میں 7 بچوں سمیت 10 افغان شہری مارے گئے تھے۔
تاہم، انہوں نے منصوبہ بندی کے عمل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس سے فوج کو حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اضافی فوج لانے کی اجازت مل گئی، کیونکہ وہ پہلے ہی خطے میں موجود تھی۔
آسٹن نے یہ بھی کہا کہ فوج ان امریکیوں کی مدد سے دست بردار نہیں ہوئی ہے جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔
تاہم، کچھ قانون سازوں نے انتظامیہ کے نقطہ نظر کو مسترد کرتے ہوئے انخلاء کو ایک المیہ اور ڈراؤنا عمل قرار دیا۔
کمیٹی میں شامل ایک اعلیٰ ریپبلکن قانون ساز جم انہوفی نے کہا، “ہم سب نے صدر کے اپنے تشکیل کردہ ایک ہولناک عمل کا مشاہدہ کیا ہے۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ واقعات جس طرح بھی ہوئے ان سے، بقول ان کے، بچا جا سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ پہلے سے نظر آ رہا تھا۔ صدر بائیڈن اور ان کے مشیروں نے جنگی کمانڈر کی بات نہیں سنی۔ انہوں نے کانگریس کو نہیں سنا، اور وہ یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہے جس کے بارے میں ہم سب جانتے تھے کہ وہاں کیا ہو گا۔
انہوفی نے بائیڈن انتظامیہ پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی منصوبہ بندی میں ناکام رہی ہے۔
وزیر دفاع آسٹن اور جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے قانون سازوں کو بتایا کہ اگرچہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن مشکل ہو گا، لیکن فوج امریکہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
ملی نے قانون سازوں کو بتایا، “یہ مشن اگرچہ اب بہت مشکل ہو گا، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد گروپ القاعدہ اور داعش کی جانب سے اگلے ایک سے تین سال کے دوران خطرات سامنے آ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا، “امریکہ پر حملہ کرنے کی خواہشات کے ساتھ دوبارہ تشکیل شدہ القاعدہ یا داعش ایک حقیقی امکان ہے۔”
ملی نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ طالبان ایک دہشت گرد تنظیم تھی اور اب بھی ہے اور انہوں نے القاعدہ سے تعلقات نہیں توڑے ہیں۔ “مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم کس کے ساتھ معاملات طے کر رہے ہیں