ترکی کا امریکی تنبیہ کے باوجود روس سے مزید دفاعی نظام کی خریداری کا عزم

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ امریکی انتباہ کے باوجود روس سے مزید دفاعی میزائل سسٹم کی خریداری کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ میں ترک صدر کی جانب سے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو کے حوالے سے کہا گیا کہ ترکی کو اپنے دفاعی نظام کے حوالے سے خود فیصلہ کرنا ہوگا۔

گزشتہ ہفتے ترک صدر نے وضاحت کی تھی کہ ترکی کو امریکی ساختہ پیٹریاٹ میزائل کی خریداری کی پیش کش نہیں کی گئی تھی اور امریکا نے 1.4 ارب ڈالر رقم کی فراہمی کے باوجود انہیں ایف 35 سٹلیتھ جیٹ طیارے فراہم نہیں کیے ہیں۔

خیال رہے کہ طیب اردوان کے انٹرویو کا یہ مختصر حصہ جاری کیا گیا ہے جبکہ مکمل انٹرویو آج کسی بھی وقت نشر کیے جانے کا امکان ہے۔

واضح رہے کہ نیٹو کے رکن ترکی کی جانب سے روس سے ایس 400 دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے اعلان کے بعد ایف 35 پروگرام روک دیا گیا تھا اور دفاعی عہدیداروں پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔

امریکا نے نیٹو میں رہتے ہوئے روس کے دفاعی نظام کو اپنانے پر سخت اختلاف کیا تھا اور ایف 35 پروگرام کو روکنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

دوسری جانب ترکی کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نیٹو میں ضم کیے بغیر وہ آزادانہ طور پر ایس 400 نظام کا استعمال کرے گا، جو خطرہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ ترکی کی جانب سے روس کی مدد سے خریداری پر امریکا نے 2020 میں 2017 کے قانون کے تحت ترکی پر پابندیاں عائد کردی تھیں، ‘سی اے اے ٹی ایس اے’ کے نام سے معروف یہ قانون پہلی مرتبہ امریکا نے اپنے کسی اتحادی پر استعمال کیا تھا۔

ترک صدر سے جب سوال کیا گیا کہ کیا وہ ایس 400 دفاعی میزائل نظام کی خریداری کریں گے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ‘جی، بلکل، یقیناً’، ترکی اپنی دفاعی حیثیت کے حوالے سے خود فیصلہ کرے گا۔

ترکی مزید روسی میزائل نظام بھی خرید سکتا ہے

نیویارک روانگی سے قبل ترک صدر نے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جوبائیڈن انتظامیہ سے تعلقات صحیح انداز میں شروع نہیں ہوسکے ہیں جبکہ انہوں نے اپنے گزشتہ 19 سالہ دور میں امریکی حکام کے ساتھ روابط کو اچھا قرار دیا۔

ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق ترک صدر کا کہنا تھا کہ میں ایمانداری سے نہیں کہہ سکتا کہ امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق ہیں۔

ترک صدر نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اگر ضرورت محسوس کی گئی تو ترکی نیا دفاعی میزائل سسٹم خریدے گا یا اسے خود تیار کرے گا۔

یاد رہے کہ یہ معاملہ ترکی اور امریکا کے درمیان متعدد متنازع معاملات میں سے ایک ہے، اس کے علاوہ دیگر معاملات میں امریکا کی جانب سے شامی کردش جنگجوں کی حمایت ہے جنہیں ترکی دہشت گرد تصور کرتا، اس کے علاوہ ایک تنازع امریکا میں مقیم ترکی کے ایک معلم کا بھی ہے، جنہیں ترکی 2016 میں طیب اردوان کی حکومت کے تختہ الٹنے کی کوششوں کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔

واضح رہے کہ 29 ستمبر کو ترک صدر کی ان کے روسی ہم منصب کے ساتھ ملاقات شیڈول ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں