اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کو دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے اور اسرائیل کا رد عمل تا حال زبانی دھمکیوں تک محدود ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے کے نیوز ورلڈ سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ مشرق وسطیٰ میں صورت حال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس نے خبردار کیا ہے کہ حالات ایک تیز یا مختلف رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف اس وجہ سے ہوسکتی ہے کیونکہ اس مشرق وسطیٰ میں حالات کافی کشیدہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ردعمل میں اس تاخیر کے پیچھے ایک اور حقیقت ہے۔وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں امریکی انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت اور ایران کے ساتھ مل کر اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جس کی خطے کے فریقین کو توقع نہیں تھی۔
نیتن یاہو سے بات چیت
ہرکوئی اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ اسرائیل ایران پر سخت بمباری کرےگا اور حملہ شدید ہوگا، لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں تعطل کو توڑتے ہوئے اسرائیل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
پریس اور کے نیوز ورلڈ کے ساتھ گفتگو کے دوران امریکی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اب بھی کشیدگی میں اضافے سے گریز، استحکام تک پہنچنے اور مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے نیتن یاہو سے ایران پر وسیع پیمانے پر اسرائیلی بمباری کے خطرات کے بارے میں بات کی تھی۔کیونکہ یہ بمباری شام، عراق اور باقی مشرق وسطیٰ میں تعینات امریکی فوجیوں کو کس قدر خطرے میں ڈاسکتی ہے۔
دو روز قبل امریکی انتظامیہ نے جان بوجھ کر یہ خبریں پریس میں لیک کی تھیں کہ امریکہ نیتن یاھو کو ایران کے ساتھ جنگ شروع کرنے سے روکنے کے لیے کام کررہا ہے حالانکہ ذرایع نے انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے واشنگٹن سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایرانی جوہری یا تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنائے گا۔
اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کو دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گذر چکا ہے اور اسرائیل کا رد عمل تا حال زبانی دھمکیوں تک محدود ہے۔
ایک امریکی اہلکار نے کے نیوز ورلڈ سے بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ مشرق وسطیٰ میں صورت حال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس نے خبردار کیا ہے کہ حالات ایک تیز یا مختلف رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ یہ تبدیلی صرف اس وجہ سے ہوسکتی ہے کیونکہ اس مشرق وسطیٰ میں حالات کافی کشیدہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی ردعمل میں اس تاخیر کے پیچھے ایک اور حقیقت ہے۔وہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں امریکی انتظامیہ نے اسرائیلی حکومت اور ایران کے ساتھ مل کر اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کی جس کی خطے کے فریقین کو توقع نہیں تھی۔
نیتن یاہو سے بات چیت
ہرکوئی اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ اسرائیل ایران پر سخت بمباری کرےگا اور حملہ شدید ہوگا، لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان تعلقات میں تعطل کو توڑتے ہوئے اسرائیل کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
پریس اور العربیہ/الحدث کے ساتھ گفتگو کے دوران امریکی حکام نے اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اب بھی کشیدگی میں اضافے سے گریز، استحکام تک پہنچنے اور مذاکرات کے ذریعے کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ صدر بائیڈن نے نیتن یاہو سے ایران پر وسیع پیمانے پر اسرائیلی بمباری کے خطرات کے بارے میں بات کی تھی۔کیونکہ یہ بمباری شام، عراق اور باقی مشرق وسطیٰ میں تعینات امریکی فوجیوں کو کس قدر خطرے میں ڈاسکتی ہے۔
“زمین پر امریکی فوجی”
امریکہ نے اپنے فوجیوں کے ایک گروپ کے ساتھ اسرائیلی علاقے میں تھاڈ میزائل ڈیفنس سسٹم بھی نصب کیا تھا۔
یہ بیٹری ایک جدید قسم کا اینٹی میزائل سسٹم ہے۔ اگر ایران اسرائیلی سرزمین پر تیسرا حملہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ بیلسٹک میزائل حملے کو پسپا کرنے میں موثر ہو سکتا ہے۔
بنجمن نیتن یاہو کی زیرقیادت اسرائیلی حکومت کو بھی اس قدم سے کافی تسلی اور اطمینان ہوا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ “آپ کے پاس اب امریکی فوجی زمین پر موجود ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی صدر تہران سے کہہ رہے ہیں کہ امریکہ اسرائیل کے دفاع کے لیے نہ صرف سازوسامان کے ساتھ مدد کررہا ہے بلکہ بلکہ میدان میں فوجی بھی تعینات کردیے ہیں۔ اگر کوئی امریکی ایرانی بمباری سے فوجی زخمی ہوئے اس کا مطلب ہے کہ امریکہ پر براہ راست حملہ کیا گیا ہے۔