چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ ایف بی آرکے بیرون ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابل قبول شواہد کے طور پر نہیں پیش کیے جا سکتے۔
نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بنچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم نے نیب ترمیمی قانون میں ایک اور چیز دیکھی، باہمی قانونی تعاون کے تحت حاصل شواہد کی حیثیت ختم کر دی گئی ہے، اب نیب کو خود وہاں سروسز لینا ہوں گی جو مہنگی پڑیں گی، آپ نے کل کہا تھا کہ باہمی قانونی تعاون کے علاوہ بھی بیرون ملک سے جائیدادوں کی رپورٹ آئی ہے، قانون میں تو اس ذریعے سےحاصل شواہد قابل قبول ہی نہیں ہیں۔
نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے نیب ترامیم کے بعد ریفرنسز واپس ہونے سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ایڈیٹڈ رپورٹ جمع کرا دی ہے؟ نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا جی نیب نے رپورٹ دے دی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایف بی آرکے بیرون ملک سے حاصل کردہ ریکارڈ عدالت میں قابل قبول شواہد کے طور پر نہیں پیش کیے جا سکتے، کیا آئین پاکستان میں شکایت کنندہ کے حقوق درج ہیں؟
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا آئین میں صرف ملزم کے حقوق اور فیئر ٹرائل کے بارے میں درج ہے، آئین پاکستان شکایت کنندہ کے حقوق کی بات نہیں کرتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ایف بی آر کو ملنے والی معلومات بطور ثبوت استعمال نہیں ہو سکتیں، ملزم سے برآمد ہونے والا مواد بھی نیب نے ہی ثابت کرنا ہوتا ہے، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالتیں شواہد کو قانونی طور پر دیکھ کر ہی فیصلہ کرتی ہیں چاہے اپنے ملک کی کیوں نہ ہوں، سوئس عدالتوں نے آصف زرداری کیخلاف اپنے ملک کے شواہد تسلیم نہیں کیے تھے۔
نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اس کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم ہے: وکیل وفاقی حکومت
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا سوئس مقدمات تو زائدالمعیاد ہونے کی وجہ سےختم ہوئے تھے عدم شواہد پر نہیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا اٹارنی جنرل نے سوئس حکام سے معاونت کس قانون کے تحت مانگی تھی کوئی نہیں جانتا۔
وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کل کہا گیا کہ نیب تحقیقات پر اربوں روپے لگے، اتنا سب کچھ کرنے کے بعد بھی نیب مقدمات میں سزا کی شرح 50 فیصد سے کم ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں بھی سزا کی شرح 70 فیصد سے کم ہے، ان میں سے بھی کئی مقدمات اوپر جا کر آپس میں طے ہو جاتے ہیں، ہم یہ ڈیٹا دیکھ رہے ہوتے ہیں جو تشویش کی بات ہے، قتل کے مقدمات میں 30 سے 40 فیصد لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، ریاست کا بنیادی کام ہی لوگوں کو انصاف دینا ہوتا ہے۔
وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ کئی متاثرین عدالتوں میں ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، متاثرین کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ وہ ملزمان کی شناخت کے بعد محفوظ رہیں گے یا نہیں۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب پر دلائل
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب پر دلائل دیتے ہوئے کہا بیرون ممالک سے باہمی قانونی تعاون کے ذریعے شواہد لیے جاتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا بیرون ممالک سے حاصل کردہ شواہد کی کیا قانونی حیثیت ہے؟
خواجہ حارث نے کہا کہ دفتر خارجہ کے ذریعے بیرون ملک سے شواہد لیے جاتے ہیں اور تصدیق کا ایک پورا عمل ہوتا ہے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پاکستان کےقانون میں بیرون ملک سے قانونی معاونت کی گنجائش کتنی ہے؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ پاکستانی قانون میں بیرون ملک سے حاصل قانونی معاونت کی زیادہ اہمیت نہیں رکھی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مئی2023 سے پہلے نیب ریفرنسز کا واپس ہونا سنجیدہ معاملہ ہے، ہمارے پاس نیب ریفرنس واپس ہونے سے متعلق تفصیلات پرمبنی فہرست ہے، بات یہ ہے کہ ہم نے آج کیس ختم کرنا ہے، ہمارے پاس جمعہ کی وجہ سے آج ساڑھے 12 بجے تک کا وقت ہے۔
عمران خان کے وکیل کو ساڑھے 12 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت
چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو ساڑھے 12 بجے تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی جبکہ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پیر کو کچھ وقت لیں گے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا پیر تک وقت نہیں،تحریری طورپرمعروضات دے دیں ہم دیکھ لیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا حال ہی میں سندھ سے نیب مقدمے میں ملزم پلی بارگین پر آمادہ ہوا، نیب نے ملزم کے آمادہ ہونے پرپلی بارگین کی رقم بڑھا دی جوکہ مضحکہ خیز عمل ہے، قانون کی کون سی شق ہے جوکہتی ہے کہ انصاف کے ترازو میں توازن برقرار ہونا چاہیے۔
نیب مقدمات میں پبلک آفس ہولڈرزکے احتساب کے عمل میں رکاوٹ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں: خواجہ حارث
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کرمنل لاء توکہتا ہے کہ ملزم قانون کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کسی کے بنیادی حقوق متاثرہوں گے تو وہ عدالت آئے گا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا نیب مقدمات میں پبلک آفس ہولڈرزکے احتساب کے عمل میں رکاوٹ سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کرمنل جسٹس سسٹم کو شفاف ہونا چاہیے، درخواست گزارکا کیس یہ ہے نیب ترامیم سے ملزمان کو تحفظ دیا گیا ہے۔
نیب قوانین میں ترامیم بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں: جسٹس منصور
جسٹس منصور نے کہا کہ نیب ترامیم سے جو کیس ختم ہو گا وہ کسی دوسرے فورم پر چلا جائے گا جبکہ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا نیب قانون کے علاوہ کسی قانون میں پلی بارگین کی شق موجود نہیں ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا ایک منٹ کیلئے مان لیتے ہیں کہ ارکان پارلمینٹ نے خود کو فائدہ پہنچانے کیلئے ترامیم کیں، کیا ہم نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیں؟ اگرہم کالعدم قراربھی دیں توکس قانون کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیں؟
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آرٹیکل9 کے تحت نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے، ان ترامیم سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے۔
نیب ترامیم میں جرم کو ختم کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی؟ چیف جسٹس کا خواجہ حارث سے سوال
چیف جسٹس پاکستان نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا خواجہ حارث صاحب آپ مانیں کہ نیب کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے، کرپشن معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہے، نیب ترامیم میں جرم کو ختم کرنا قانونی ہے یا غیر قانونی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جواب یہ ہےکہ آئندہ پارلیمنٹ آئے گی تو نیب ترامیم پر دوبارہ غور کر لے گی، اگرپارلیمنٹرینز نے اپنے فائدے کیلئے قانون بنایا ہے تو آئندہ عوام ان کومنتخب نہیں کرے گی، انتخابات سر پر ہیں اور جمہوریت آئین کی بنیاد ہے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے طریقے سے چلنے دیں ورنہ جمہوری نظام نہیں چل سکے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب قانون کا کاروباری شخصیات کے خلاف غلط استعمال کیا گیا، میرے پاس ایسے کاروباری شخصیات کےنام بھی موجودہیں جنہیں نقصان پہنچایا گیا، ایسے نہیں ہونا چاہیے،کسی اکاؤٹنٹ کوبٹھا کر 10 روپے کی غلطی نکالی جائے، قانون کے مطابق کاروبارکرنے والی شخصیات کے خلاف نیب قانون کا غلط استعمال کیا گیا، کسی جرم کی نوعیت تبدیل کرنا درست نہیں، کرپشن معاشرے اورعوام کیلئے نقصاندہ ہے۔
پارلیمنٹیرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تویہ ہےکہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا: جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایسے لگ رہا ہےکہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم میں غلطی نکلے لیکن نہیں مل رہی، کچھ چیزوں کو فطرت پر بھی چھوڑیں، الیکشن سرپر ہیں عوام کو فیصلہ کرنے دیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کیس ایک چٹھی پربھی چلاسکتے تھے لیکن بنیادی حقوق کا معاملہ تھا اس لیے سن رہے ہیں جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹیرین عوام کا امین ہوتا ہے، سب سے بڑی خلاف ورزی تویہ ہےکہ کیسے ایک شخص اپنی مرضی سے پارلیمنٹ چھوڑ کر چلا گیا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا یہ سیاسی فیصلہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھنا ہے یا چھوڑنا ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کا فورم موجود تھا،کیسے اپنی حلقے کی نمائندگی چھوڑ دی؟ درخواست گزار کی نیک نیتی کیا ہے؟