ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کیس: حکومت نے مذاکرات کے لیے مزید وقت مانگ لیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کرانےکے کیس کی سماعت  کے دوران حکو مت نے مذاکرات کے لیے مزید وقت مانگ لیا۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔

آج سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل پاکستان منصورعثمان اعوان نے بتایا کہ حکومت نے بھی اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، فاروق نائیک صاحب مذاکرات سے متعلق مزید بتائیں گے۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک متفرق درخواست بھی جمع کرائی ہے، چیئرمین سینیٹ کے آفس میں مذاکرات ہوئے، چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے 5 ادوار ہوئے، حکومتی اتحادی جماعتوں نے موجودہ ملکی معاشی صورتحال سے تحریک انصاف کو آگاہ کیا، آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات سے متعلق بھی پی ٹی آئی کمیٹی کو بتایا گیا، ملک کی موجودہ خراب معاشی صورتحال کو پی ٹی آئی نے بھی تسلیم کیا، حکومتی اتحادی جماعتوں نے اگست میں قومی اسمبلی توڑنے پر رضامندی ظاہر کی،مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ حکومتی جواب میں آئی ایم ایف معاہدے پر زور دیا گیا، عدالت میں ابھی مسئلہ آئینی ہے،سیاسی نہیں، سیاسی معاملہ عدالت سیاسی جماعتوں پر چھوڑتی ہے، یہ بتائیں کہ آئی ایم ایف معاہدہ اور ٹریڈ پالیسی کی منظوری کیوں ضروری ہے؟

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کا قرض ملنا ضروری ہے، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکےگا، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑی نہ گئی ہوتیں تو بحران نہ آتا، بحران کی وجہ سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے، اسمبلیاں توڑنے سے عدالت پر بوجھ بھی پڑ رہا ہے، افہام وتفہیم سے معاملہ طے ہوجائے تو بحرانوں سے نجات مل جائےگی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آئی ایم ایف قرضہ سرکاری فنڈز کے ذخائر میں استعمال ہوگا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟ فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ یہ جواب وزیر خزانہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نےکہا کہ اسمبلی توڑنے پربھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبار میں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، تحریک انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکارنہیں کرسکتا، یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پرعمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پرعدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا موقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے توعدالت 14 مئی کے فیصلے کو لےکر بیٹھی نہیں رہےگی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اپنے فیصلے پرعمل کرانے کے لیے آئین استعمال کرسکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے، کہا گیا ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور  راستہ نکالا اور اس سے نقصان ہوا، اس عدالت نےہمیشہ احترام کیا اور کسی بات کا جواب نہیں دیا، جب غصہ ہو تو فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ ہی نہیں کرتے، نائیک صاحب، یہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور باہرکس لیول کی ہوتی ہے، عدالت اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کو موازنہ کرکے دیکھ لیں۔

فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کو 90 دن میں انتخابات والے معاملےکا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا، انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا ہونا ضروری ہے، منتخب حکومتوں کے ہوتے ہوئے الیکشن کوئی قبول نہیں کرےگا، یہ نظریہ ضرورت نہیں ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ 23 فروری کا معاملہ شروع ہوا تو آپ نے انگلیاں اٹھائیں، یہ سارے نکات اس وقت نہیں اٹھائےگئے، آئینی کارروائی کو حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا۔ فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ہمیں تو عدالت نے سنا ہی نہیں تھا، اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ سپریم کورٹ نے سماعت شروع کی تو حکومت نے بائیکاٹ کر دیا، حکومتی بائیکاٹ کے بعد ہم نے بھی کہہ دیا السلام وعلیکم۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت نے سنجیدگی سے کیس چلایا ہی نہیں، حکومت نےکبھی فیصلہ حاصل کرنےکی کوشش ہی نہیں کی، آپ چار تین کی بحث میں لگے رہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اسمبلیاں بحال کرنےکا نکتہ اٹھایا تھا لیکن حکومت کی دلچسپی ہی نہیں تھی، آج کی گفتگو ہی دیکھ لیں،کوئی فیصلے یا قانون کی بات ہی نہیں کر رہا، حکومت کی سنجیدگی یہ ہےکہ ابھی تک نظرثانی درخواست دائرنہیں کی، حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے، چھ فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیے، یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سکیورٹی کا اہم مسئلہ درپیش ہے، اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائےگا۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے سنجیدگی سے مذاکرات میں حصہ لیا، ایک ہی دن انتخابات پر دونوں فریقین نے رضامندی ظاہرکی، حکومت مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کے لیے استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر سب کو عمل کرنا ہوگا، ہم نے مذاکرات میں کہا کہ قومی اسمبلی توڑ کر سپریم کورٹ کو آگاہ کیا جائے، حکومتی کمیٹی نے اسمبلی توڑنے سے اتفاق نہیں کیا، سپریم کورٹ جو حکم کرے گی ہم من وعن تسلیم کریں گے، ابھی تک حکومت نے پنجاب انتخابات کے لیے فنڈز نہیں دیے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل ہونا چاہیے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق روسٹرم پر آگئے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ معذرت کے ساتھ، 2017 سے سپریم کورٹ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی، میرے ساتھ اس عدالت نے زیادتی کی، ہم اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتے، مذاکرات میں حکومت نے لچک دکھائی مگر دوسرے فریق نے لچک نہیں دکھائی، آئین 90 دن میں انتخابات کا کہتا ہے مگر صاف شفاف انتخابات کا بھی کہتا ہے، پنجاب میں پہلے انتخابات سے بہت سے مسائل پیدا ہوں گے، انتخابات کے معاملے پر ہی پہلے آدھا ملک گنوا چکے ہیں، ایک صوبے کا انتخاب ہونا تباہی لاسکتا ہے، 1988 کے سیلاب اور بینظیربھٹو کی شہادت کے وقت انتخابات آگے ہوئے تھے، حکومت انتخابات ایک ہی دن کرانے کے لیے تیار ہے، آرٹیکل 63 اے سے متعلق نظرثانی درخواست ابھی تک نہیں لگائی گئی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ درخواست ہم لگا رہے ہیں اٹارنی جنرل کو اس بارے میں بتادیا گیا ہے، ہماری اس کیس سے جان چھڑائیں گے تو ہم دوسرے کیس سنیں گے۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کچھ مزید وقت مل جائے تو انشاءاللہ ضرور حل نکلےگا، اسمبلیاں توڑبھی دیں تو آئینی مدت کے تحت نومبر تک انتخابات ہوں گے، سیاسی معاملات میں عدالتوں کے الجھنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ہماری سیاسی تاریخ زخموں سے چور چور ہے، پہلے ضیا پھر مشرف اور پچھلا نقاب پوش مارشل لاء گزر گیا تو یہ وقت بھی گزرجائےگا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ابھی اپنا ہاتھ روک کر بیٹھی ہے، بڑی بڑی جنگوں میں بھی انتخابات ہوئے ہیں، ترکی میں زلزلے کے باوجود انتخابات ہوئے۔

سعد رفیق نےکہا کہ ہم ایک بھی دن مدت سےاوپر اسمبلی نہیں چلائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جو باتیں ابھی عدالت کو بتائیں جارہی ہیں وہ لکھ کردی جا سکتی تھیں، انتخابات کے لیے فنڈز دے دیے جاتے باقی سکیورٹی کا بتادیا جاتا، بجٹ تو مئی میں بھی پیش کیےگئے،لازمی تو نہیں کہ بجٹ 30 جون کو ہی پیش کیا جائے، ہم دیکھتے رہے ہیں کہ جون سے پہلے بجٹ پیش ہوئے، آپ نے ہمیں ازخود نوٹس لینے کا کہا، ہم ازخود نوٹس لینا ترک کرچکے ہیں۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن انتخابات کا فیصلہ ازخود نوٹس کے نتیجے میں ہی آیا، میں نے از خود نوٹس لینے کا نہیں کہا، میرا کہنا تھا کہ اگرکوئی بات ہم سے رہ گئی تو عدالت خود اس کو سمجھ سکتی تھی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرامتحان دینا پڑا تو مولا کی جومرضی ہوگی ہمارے ساتھ وہی ہوگا، ملک وقوم کی خاطر مسائل ختم کرنا چاہتے ہیں۔

سعد رفیق کا کہنا تھا کہ تین نکات پراتفاق ہوچکا ہے تو چوتھے نکتے پربھی اتفاق ہوجائے گا، مذاکرات میں موجودہ وقفہ کوئی بڑا وقفہ نہیں ہے۔

حکومت نے مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالت سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کردی۔

خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میری درخواست ہے سپریم کورٹ کوئی ہدایت یا حکم نہ دے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کسی قسم کی کوئی ہدایت کا ارادہ نہیں، ہم آپ لوگوں کو سننے کا اختیار تو رکھتے ہیں۔

گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھےکہ عدالت مذاکرات پر مجبور نہیں کرسکتی صرف آئین پرعمل چاہتی ہے، سیاسی جماعتیں آئین کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں۔ چیف جسٹس نےکہا کہ عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے، قومی مفاد اور  آئین کے تحفظ کے لیے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسا ہی چلےگا۔

عدالت نےگزشتہ روز 27 اپریل کو ہونے والی آخری سماعت کا تحریری حکم جاری کیا تھا۔

تین صحفات پر مشتمل تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی کوئی ہدایت نہیں کی، سیاسی جماعتوں کی جانب سےمذاکرات ان کی اپنی کوشش ہے، سپریم کورٹ کا14مئی کوانتخابات کرانےکاحکم برقرار ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں