اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈیم فنڈز پر سپریم کورٹ کے اختیار کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ڈیم فنڈ جب اکٹھا ہو رہا تھا تب آپ نے کیوں اعتراض نہیں کیا؟ اب ڈیم فنڈز جمع ہوئے پانچ سال ہو چکے ہیں، ڈیم فنڈز پر اگر اعتراض ہوتا تو اسٹیٹ بینک کو ہوتا اور اکاؤنٹ ہی نہیں کھلتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مقامی وکیل عدنان اقبال کی درخواست پر سماعت کی جس میں ڈیم فنڈز کے اکاؤنٹ ٹائٹل سے چیف جسٹس کا نام ہٹانے اور رجسٹرار سپریم کورٹ کو فنڈز کے استعمال سے فوری روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست گزار وکیل نے کہا ہم یہ چاہ رہے ہیں کہ ڈیم بنانا ایگزیکٹو کا کام ہے سپریم کورٹ کیسے دیکھ رہی ہے؟ یہ آئین کے آرٹیکل 175 کی خلاف ورزی ہے، سپریم کورٹ میں اتنے کیسز التوا میں ہیں انہیں دیکھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا تو اس میں کیا ہے وہ تو انتظامی طور پر معاملہ ہورہا ہے، سپریم کورٹ بھی ایگزیکٹو باڈی ہے، آپ کہتے ہیں کہ جوڈیشری کے اکاؤنٹ میں پیسے نہ ہوں یا تو آپ کہیں کہ وہ پیسہ اپنے گھروں میں لگا رہے ہیں۔
وکیل نے کہا سپریم کورٹ کا اختیار نہیں کہ اس طرح فنڈز اکٹھے کرے، جتنی رقم ڈیم فنڈ میں جمع ہوئی اس سے زیادہ اس کی تشہیر پر لگی، 13 ارب کی تشہیری مہم سے 10 ارب روپے حاصل کئے گئے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو طلب کر کے پوچھا جائے کہ انہوں نے فنڈز جمع کرنے کا کام کس حیثیت میں کیا؟ درخواست میں کیس کے حتمی فیصلے تک رجسٹرار سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈز پر اختیار کو معطل کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار، فنانس ڈویژن، اسٹیٹ بینک، وزیراعظم آفس، رجسٹرار سپریم کورٹ اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو فریق بنایا گیا ہے۔
عدالت نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔