وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تاڑر نے کہا ہے کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کرسکتا ہوں، اس کی وجہ سے ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران اور زیادہ سنگین ہوگا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے فیصلہ جاری ہونے کے بعد پریس کرنفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سیاسی جماعتوں، بار کونلسز اور سول سوسائٹی کے مطالبے کے باوجود یہ فیصلہ سنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 3 رکنی بینچ کے فیصلے پر دکھ اور افسوس کا اظہار ہی کرسکتا ہوں، اس کی وجہ سے ملک میں جاری سیاسی و آئینی بحران اور زیادہ سنگین ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آج جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ بھی بنادیا گیا ہے جس میں جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اظہر رضوی شامل ہیں، یہ پیس رفت اٹارنی جنرل کے دلائل اور پارلمیان میں ہمارے مؤقف کی دلیل ہے، قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ دیا تھا کہ جب تک فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوتی اور 184 (3) کے حوالے سے رولز نہیں بن جاتے اس وقت تک ازخود نوٹس کے کیسز پر سماعت نہ کی جائے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب یکم مارچ کو فیصلہ آیا اس روز بھی ہمارا یہ مؤقف تھا کہ ازخود نوٹس کیس 3 کے مقابلے میں 4 ججز کی اکثریت سے خارج ہوا اور 4 ججز نے کہا کہ ہم ان پٹیشنز کو 184 (3) کے دائرہ کار سے باہر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس انتہائی اہم آئینی معاملے پر فل کورٹ بننا چاہیے تھا جوکہ نہیں بنا، اٹارنی جنرل نے مشورہ دیا تھا کہ اس بینچ میں شامل نہ ہونے والے دیگر 6 جج صاحبان پر مشتمل ایک علیحدہ بینچ بنا دیا جائے لیکن وہ استدعا بھی رد کردی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس صاحب کو عدالت میں تقسیم کا تاثر ختم کرنے کے لیے اس اہم آئینی اور قانونی مسئلے کو فل کورٹ میں لے کر جاتے۔
انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کا حل صرف اجتماعی سوچ میں تھا، سپریم کورٹ کو ایک پیچ پر ہوتے ہوئے ایک عدالت میں بیٹھ کر یہ فیصلہ سننا چاہیے تھا جسے تمام فریقین قبول کرتے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فیصلے کی مزید تفصیلات سامنے آرہی ہیں لیکن حکومتی اتحاد اس حوالے سے واضح ہے کہ سپریم کورٹ کے معاملات کو جس طرح چلایا جارہا ہے، جس طرح اہم آئینی معاملات کا فیصلہ کیا جارہا، بینچز کی تشکیل جس طرح ہورہی ہے اور سنیارٹی کو نظرانداز کیا جارہا ہے، اس پر لوگ انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری چیف جسٹس سے مطالبہ ہے کہ ان تمام معاملات پر فل کورٹ میٹنگ بلائیں اور ان تمام معاملات کو درست کیا جائے ورنہ یہ بحرانی کیفیت سنگین آئینی بحران میں نہ تبدیل ہوجائے، پاکستان اس وقت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک نجی محفل میں ہاتھ جوڑ کر استدعا کی تھی کہ عدالت کو اکھٹا رکھیں، یہ 5 یا 7 ججز نہیں 15 ججز کی مؤقر عدالت ہے۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ میں ابھی بھی پرامید ہوں کہ عدلیہ کے وقار پر کوئی آنکھ نہیں اٹھائے گا، ابھی بھی بہت زیادہ نقصان نہیں ہوا، عدالت کا وقار انا کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے۔
آئندہ لائحہ عمل سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ابھی فیصلہ آئے کچھ ہی دیر ہوئی ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرتے ہیں، ہم اسی کا تو رونا روتے ہیں، آج ڈھائی بجے کابینہ کا اجلاس ہے جس میں اس پر گفتگو ہوگی اس کے بعد طے کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ اور پارلیمان کے سامنے بھی اس معاملے کو رکھیں گے، وزیراعظم نے تو آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ بھی کابینہ میں بیٹھ کر کیا تھا