اسرائیلی وزیر کے نسل پرستانہ بیانات کے بعد نیتن یاھو سے امریکہ کی ناراضگی سرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنی حکومت کے قیام کے تین ماہ بعد ہی اپنی غلطیوں اور لغزشوں کا ایک پلندہ جمع کرلیا ہے۔ حکومت کی تازہ ترین غلطیوں میں سے ایک اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کے نسل پرستانہ بیانات ہیں۔ ان بیانات نے نہ صرف عالمی تنقید کو پیدا کیا بلکہ واشنگٹن کو بھی ناراض کردیا ہے۔
اسرائیلی آرمی ریڈیو نے منگل کو بتایا ہے کہ باخبر ذرائع نے اطلاع دی ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے نیتن یاہو کو کہا ہے کہ انہیں وائٹ ہاؤس میں عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی بنا پر واشنگٹن نے اسرائیلی وزیراعظم کو آگاہ کیا ہے کہ ان کے لیے امریکہ کا دورہ کرنے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹریچ مقبوضہ مغربی کنارے کے انتظامی امور کے انچارج ہیں۔ انہیں اتوار کو پیرس میں ایک کانفرنس میں یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ “کیا فلسطین کی کوئی تاریخ یا ثقافت ہے؟ فلسطینی عوام نام کی کوئی چیز نہیں ہے” ۔ ان کے اس بیان پر دنیا بھر میں تنقید کی جارہی ہے۔ پیر کے روز اردن نے سموٹریچ کی اس بنا پر شدید مذمت کی کہ انہوں نے ایک تقریب میں جس پوڈیم سے بات کی تھی اس پر اسرائیل کے نقشے میں اردن اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو بھی شامل دکھایا گیا تھا۔
سموٹریچ نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحاد میں ایک قومی مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں۔ نے اپنی تقریر اسی دن کی جب اسرائیلی اور فلسطینی حکام نے رمضان کے مقدس مہینے اور یہودی عید فصح کی چھٹی سے پہلے بڑھتی ہوئی کشیدگی کو روکنے کے لیے مصری تفریحی مقام شرم الشیخ میں ملاقات کی تھی۔ سموٹریچ کے بیانات کے بعد مصر، اردن اور فلسطینی وزیر اعظم محمد اشتیہ نے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس قسم کی زبان کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ ہم کوئی ایسی تقریر یا کوئی عمل نہیں دیکھنا چاہتے جو دو ریاستی قابل عمل حل تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔ یورپی یونین نے وزیر کے بیان کو ناقابل قبول اور خطرناک قرار دے دیا۔
یاد رہے اسی اسرائیلی وزیر نے گزشتہ ماہ مغربی کنارے کے قصبے حوارہ کو مٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد میں اس نے کہا کہ میں نے غلط بات کی تھی لیکن اس نے اپنے اس بیان پر معافی نہیں مانگی تھی۔