امریکا کے مڈٹرم الیکشنز میں اس بار تاریخ رقم ہوئی ہے۔تین پاکستانی امریکنز ریاستی اسمبلی اور سینیٹ میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
پاکستانی امریکن سلمان بھوجانی ریاست ٹیکساس کی اسمبلی سے پہلی بار منتخب ہوئے ہیں۔ سلمان بھوجانی نے20،137اور ان کے رپبلکن حریف جولیونگسٹن نے14،597 ووٹ حاصل کیے، اسطرح بھوجانی نے 58 فیصد اور ان کے حریف لیونگسٹن نے 42 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
ڈیموکریٹ سلمان بھوجانی ٹیکساس ریاستی اسمبلی کے نہ صرف پہلے پاکستانی امریکن رکن اسمبلی ہیں بلکہ وہ اس ایوان کےپہلےجنوب ایشیائی اور پہلے غیر سفید فام رکن اسمبلی بھی ہیں۔ ان کے ڈسٹرکٹ 92 میں پاکستانیوں یا مسلمانوں کی بڑی تعداد نہیں تھی۔ وہ علاقے کے سابق کونسلر اوریولیس شہر کے میئررہ چکےہیں اور یہی رستہ انکے ایوان تک پہنچنے کا زریعہ بنا۔
ٹیکساس ہی کی ریاستی اسمبلی میں ڈاکٹرسلیمان لالانی بھی پہلی بار منتخب ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر لالانی ڈسٹرکٹ 76 سے ڈیموکریٹ امیدوار تھے اور انہیں 28،240 ووٹ ملے جبکہ انکے حریف ڈین میتھیوز کو 21،103 ووٹ ملے۔ اس طرح ڈاکٹرلالانی نے 57اعشاریہ 2 فیصد اور میتھیوز نے 42 اعشاریہ 8 فیصد ووٹ حاصل کیے۔
کنیٹی کٹ میں ڈاکٹر سعودانور مسلسل تیسری بارریاستی سینیٹرمنتخب ہوئے ہیں۔ وہ ریاست کے ڈسٹرکٹ 3 سے ڈیموکریٹ امیدوار تھے اور انہوں نے 18،959 ووٹ حاصل کیے، ڈاکٹر سعود کے ری پبلکن حریف میٹ ہارپر صرف 12،189 ووٹ لے پائے۔ اسطرح ڈاکٹر سعود انور نے 60 اعشاریہ 9فیصد اور انکے حریف نے 39 اعشاریہ ایک فیصد ووٹ حاصل کیے۔
ڈاکٹر سعود انور کے حلقے میں مسلمانوں کی تعداد صرف ایک سے دو فیصد ہے جبکہ پاکستانیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ انہیں ووٹ دینے والوں کی اکثریت غیرمسلموں کی تھی۔
فاتح قرار پائے جانے کے بعد مجھے خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر سعود انور نے کہا کہ یہ جیت ان کے لیے اعزاز اور حلقے کے عوام کے اعتماد کامظہر ہے۔ پاکستانی امریکن سینیٹر نے کہا کہ پچھلے دو ادوارمیں جن پالیسیوں کی انہوں نے وکالت کی اور قانون سازی کے عمل میں حصہ لیا، وہ عوام کے جذبات کی ترجمان تھیں اوریہی اقدام انکی کامیابی کی ضمانت بنا۔
ڈاکٹر سعود انور نے توقع ظاہر کی کہ سو فیصد ووٹ شمار ہونے پر کیلی فورنیا سے کانگریس کا الیکشن لڑنے والے ڈاکٹر آصف محمود کے مجموعی ووٹوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ ایوان کے الیکشنز چونکہ ہر دو سال بعد ہوتے ہیں اس لیے ناکام امیدواروں کو بھی ابھرنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ڈاکٹر سعود انور کےبقول آپ ہارتے اس وقت ہیں جب امید کا دامن چھوڑ دیتےہیں۔
ڈاکٹر سعود انور کاکہنا تھاکہ امریکا میں جو افراد مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں وہ اگر سیاست میں قدم رکھتے ہیں تو اس کا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہوتا ہے یا وہ ایسی پالیسیوں پر عمل چاہتے ہیں جو انکے نزدیک ریاست یا ملکی سطح پر اپنائی جانی چاہیئں، ایسے میں کمیونٹی اورمختلف گروہوں کو سیاست میں آنےوالوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے اورانہیں فنڈز دینے چاہیے تاکہ وہ مؤثر انتخابی مہم چلاسکیں، کیونکہ امریکا میں بھرپورانتخابی مہم چلانا آسان نہیں۔
کچھ ایسا ہی چیلنج ڈاکٹر آصف محمود کو درپیش تھا جو کیلی فورنیا کے ڈسٹرکٹ 40 میں رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی موجودہ رکن کانگریس یونگ کم کے مدمقابل تھے۔
ابتک شمار کیے گئے ووٹوں سے واضح ہے کہ یونگ کم نے ایک لاکھ 721 ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ ڈیموکریٹ آصف محمود 69،635 ووٹ لے پائے ہیں۔ اس طرح یونگ کم نے 59 فیصد اور ڈاکٹر آصف نے تقریبا 41 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ڈاکٹر آصف نے مجھے بتایا کہ چونکہ ابھی بہت سے ووٹ شمار کیا جانا باقی ہے اس لیے انہوں نےامید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، وہ اب بھی جیت کے لیے پرامید ہیں۔ پاکستانی امریکن پلمونولوجسٹ کا کہنا تھاکہ وہ ایک ایک ووٹ شمار ہونے کا انتظار کریں گے کیونکہ یہ معرکہ خیز الیکشن ہیں جس میں ملک کو سیاستدانوں کی نہیں مسائل حل کرنیوالوں کی ضرورت ہے۔
اشارتا انہوں نے یہ بھی واضح کردیا کہ اگر نتائج انکی توقعات کے برعکس نکلے تب بھی وہ ہیلتھ کیئر اصلاحات، ماحولیاتی پالیسی میں تبدیلیوں، اقتصادی انصاف جیسے امور کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس مڈٹرم الیکشن میں سہراب گیلانی بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ وہ ٹیکساس کی اسمبلی میں ڈسٹرکٹ 27 سے ری پبلکن امیدوار تھے۔ ویسے تو انکے حلقے میں ووٹرز کی اکثریت ڈیموکریٹس پرمشتمل ہے دوسرے بھرپورانتخابی مہم چلانے کے لیے گیلانی کے پاس مالی وسائل کی بھی کمی تھی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایوان میں نشست کا دفاع کرنیوالے ڈیموکریٹ ران رینالڈز 40،556 ووٹ لے کر بھاری اکثریت سے کامیاب رہے اور گیلانی کو 17،179 ووٹ ملے۔ یعنی رینالڈز کو تقریبا 70 فیصد اور گیلانی کو 30 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔
گیلانی نے شکست تسلیم کرتےہوئے حریف کو مبارکباد دی اور بولے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ مجھے انٹرویو میں گیلانی نے کہا کہ پہلی بارالیکشن لڑنے پر بھی ڈیموکریٹس کے گڑھ میں اگر اس قدر لوگوں نے ان پر اعتماد کااظہار کیا ہےتو یہ حوصلہ افزا ہے۔ وہ لوگوں کے بہتر مستقبل کےلیے اپنی جمہوری جدوجہد جاری رکھیں گے۔
اس مڈٹرم الیکشن میں ریاستی ایوانوں میں دو اراکین اور ایک ریاست میں پاکستانی امریکن سینیٹر تو منتخب ہوئے ہیں۔ساتھ ہی ایک اور پاکستانی نے بھی ہیٹ ٹرک کی ہے۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے پاکستانی امریکن علی سجاد تاج آرٹیشیا شہر کے مسلسل تیسری بار میئر منتخب ہونے میں کامیاب رہے ہیں۔
پاکستانی امریکنز کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے علی سجاد تاج مسلسل تیسری بار آرٹیشیا شہر کے میئر منتخب ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اپنے انٹرویو میں علی سجاد تاج نے کہا انکی مسلسل کامیابیاں پوری کمیونٹی کے لیے اعزاز ہے اور وہ پر امید ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
کیلی فورنیا ہی سے کونسل کی پاکستانی امریکن امیدوار صبینہ ظفر کو بھی اپنے حریفوں پر کئی ہزار ووٹوں کی سبقت حاصل ہے تاہم ابھی حتمی نتائج کا اعلان نہیں ہوا۔
مڈٹرم الیکشن ڈیموکریٹس کے لیے بہت اچھی خبرنہیں لایا مگر پاکستانی امریکن ڈیموکریٹس کے لیے نیک شگون ضرور ثابت ہوا ہے۔اس قدر تعداد میں پاکستانی امریکنز کا الیکشن لڑنا اور جیتنا ہی اس بات کااظہار ہے کہ انڈین امریکنز کو دیکھتے ہوئے وہ بھی سیاست کے مرد میداں بننے کے راستے پر گامزن ہو گئے ہیں۔