ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کے خلاف ٹرائل کورٹ کا حکم ’غلط‘ تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں سزا سنانے کا احتساب عدالت کا حکم درست نہیں تھا سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عملی طور پر کلیئر کر دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔

اپنے تفصیلی فیصلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ دونوں کے خلاف استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا اور اپیل کنندگان کو دی گئی سزا بلا جواز اور بے بنیاد تھی، عدالت عالیہ نے نواز شریف اور ان کے خاندان کی سزا کے حوالے سے احتساب عدالت کے فیصلے کو “غلط “ قرار دیا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 6 جولائی 2018 کو نواز شریف، مریم نواز، اور کیپٹین ریٹائرڈ صفدر کو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مجرم قرار دیا تھا، اس ریفرنس کی تحقیقات پاناما پیپرز میں کیے گئے انکشافات کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے کی تھی، ٹرائل کورٹ نے جائیدادوں کی مالک مریم نواز پر آف شور کمپنیوں کی بینیفشل اونر ہونے کا الزام بھی لگایا تھا۔

احتساب عدالت نے قرار دیا تھا کہ ملزمان میں اس وقت صرف نواز شریف ہی پبلک آفس ہولڈر تھے جب کہ دیگر شریک ملزمان میں ان کے بچے اور داماد شامل تھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بینچ نے نواز شریف کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیا اور ریمارکس دیے کہ ان کی اپیل بینچ کے سامنے نہ ہونے کے باوجود نواز شریف اور ان کی بیٹی کی سزا باہم منسلک ہیں۔

تفصیلی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ احتساب کا ادارہ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکا کہ کیا استغاثہ نے اپنے اوپر عائد مطلوبہ ذمہ داری کو پورا کیا“، فیصلے میں نشاندہی کی گئی کہ سپریم کورٹ نے بار ثبوت ملزم پر ڈالنے کے لیے اصول طے کردیے ہیں جن کے تحت ملزم کا پبلک آفس ہولڈر ہونا ضروری ہے اور پبلک آفس ہولڈر کے قبضے میں پائے جانے والے وسائل یا جائیداد اس کی آمدنی کے معلوم ذرائع سے مطابقت نہ رکھے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کو یہ ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے کرپٹ اور غیر قانونی طریقوں سے مریم نواز کے نام پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس خریدے اور مریم نواز نے ان کے زیر کفالت ہونے کی وجہ سے حقیقی ملکیت کو چھپا کر ان کی مدد اور تعاون کیا تھا۔

فیصلے کے مطابق پراسیکیوشن کو یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ جب جائیدادیں خریدی گئیں تو نواز شریف پبلک آفس ہولڈر تھے، ریکارڈ پر ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔’

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد استغاثہ کو نواز شریف کے معلوم ذرائع آمدن کے حوالے سے شواہد پیش کرنے تھے جن کے بارے میں انکم ٹیکس گوشواروں یا بینک اکاؤنٹس یا دیگر ذرائع کے حوالے سے ریکارڈ پر کچھ بھی موجود نہیں تھا، نواز شریف کے معلوم وسائل/آمدنی کے بارے میں بھی کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں تھا، اسی طرح خریداری کے وقت ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی مالیت یا مذکورہ جائیدادوں کی خریداری کے لیے ادا کی گئی قیمت سے متعلق بھی کوئی ثبوت ریکارڈ پر نہیں تھا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ اگر استغاثہ کے مؤقف پر یقین کیا جائے کہ جائیدادیں 1993 اور 1996 کے درمیان خریدی گئیں تو اس صورت میں بھی نواز شریف کے اس وقت کے معلوم ذرائع آمدن کے ساتھ ساتھ اپارٹمنٹس کی مالیت کا تعین کرنے کی ضرورت تھی، نواز شریف کے خلاف کیس کا واحد جواز یہ تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ان کمپنیوں کے نام پر خریدے گئے جن کی بینیفشل اونر مریم نواز تھیں جو نواز شریف زیر کفالت تھیں۔

عدالت عالیہ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ کو مدد اور تعاون کے الزامات ثابت کرنے کے لیے قابل فہم شک و شبہ سے بالاتر شواہد کی ضرورت تھی کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت تھیں۔

عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ لا فرم موساک فونسیکا کے 22 جون 2012 کے خطوط پر اس کے ذمے دار شخص کا بیان ریکارڈ کیے بغیر انحصار نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں