کے الیکٹرک بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی روکنے کے حکم امتناع میں توسیع

سندھ ہائیکورٹ نے کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی روکنے کے حکم امتناع میں مزید توسیع کردی ہے۔

سندھ ہائیکورٹ میں بجلی کے بلوں میں میونسپل ٹیکس کی وصولی کے خلاف جماعت اسلامی اور شہری نجیب احمد کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، اس موقع پر ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب عدالت میں پیش ہوئے۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ سماعت پر سوال پوچھا تھا کہکسی تیسرےفریق کےذریعے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے یانہیں، اس کا جواب سیکشن 100 میں دیا گیا ہے۔

جسٹس اطہر رضوی نے کہا کہ اس کیس میں صلاح الدین احمد، فیصل صدیقی اور عمر سومرو کو عدالتی معاون مقرر کردیتے ہیں، اس پر کے الیکٹرک کے وکیل نے اعتراض کیا کہ صلاح الدین اور فیصل صدیقی نے کے الیکٹرک کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ان درخواستوں میں قانون سازی کو چیلنج نہیں کیا گیا ہے۔

یونین لیڈر ذوالفقار شاہ نے کہا کہ کے ایم سی کے ملازمین بھی پریشان ہیں، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کے ایم سی ملازمین ٹھیک سے کام کیوں نہیں کرتے؟

مرتضٰی وہاب نے کہا کہ کے الیکٹرک کے ذریعے ٹیکس کی وصولی ایک شفاف عمل ہے، ساڑھے 7 لاکھ لوگوں نے یہ ٹیکس دیا ہے، ساڑھے 6 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں۔

عدالت نے سنئیر قانون دان خالد جاوید خان اور منیر اے ملک ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے دونوں کو نوٹس جاری کردیے۔

عدالت کی جانب سے دونوں درخواست گزاروں کو ہدایت کی گئی کہ عدالتی معاونین کو درخواست کی کاپی فراہم کریں۔

بعدازاں عدالت نے حکم امتناع میں توسیع کرتے ہوئے درخواستوں پر مزید سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی۔

عدالت کے باہر مرتضیٰ وہاب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے، گزشتہ 10 روز میں 7 لاکھ 43 ہزار لوگوں نے یہ ٹیکس دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو پیسہ آیا ہے کراچی کی عوام کی امانت ہے، اس پیسے سے سڑکیں پل نالوں کی صفائی ہوگی، یہ ٹیکس مصطفیٰ کمال اور وسیم اختر کی دور میں 5 ہزار تھا، اس ٹیکس کو کم کرکہ 150 روپے کردیا ہے

مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ سوا 3 ارب روپے کی آمدن ہوگی، اس کے بعد لوگ پوچھ سکیں گے، کراچی کے ساڑھے 7 لاکھ لوگوں کا شکر گزار ہوں

انہوں نے مزید کہا کہ شفاف طریقہ کار بنا کر جارہا ہوں، ویب سائٹ پر باقاعدہ بتایا جائے یا کہ یہ پیسہ کہاں خرچ ہوا ہے، اس ٹیکس میں رخنہ مت ڈالیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں