پاکستان کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے مارکیٹ میں ’روسی تیل دستیاب رکھنے‘ کے امریکی فیصلے سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نرمی کو ان پابندیوں میں نرمی کی جانب اقدام کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے جو امریکا نے رواں برس فروری میں یوکرین پر حملہ کرنے کی وجہ سے روس پر عائد کی تھیں۔
تاہم انہوں نے فوری طور پر اس جانب اشارہ کیا کہ ’دیگر ممالک کو توانائی کی درآمدات کے معاملے میں اپنے حالات کی بنیاد پر اپنا انتخاب خود کرنا پڑے گا‘۔
اس سے قبل یہ رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ امریکا نے پاکستان کو ’روسی خام تیل کے لیے قلیل مدتی کٹ ریٹ ڈیل‘ حاصل کرنے کی اجازت دی تھی لیکن اس طریقہ کار کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی تھی جس کے تحت یہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں امریکی حکومت کی جانب سے کوئی تصدیق کی گئی تھی۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’ایسے میں کہ جب امریکا ایک مضبوط توانائی پیدا کرنے والے ملک کی حیثیت کے پیش نظر روس سے تیل، مائع قدرتی گیس (ایل این جی) اور کوئلے کی درآمد پر پابندی لگانے کے قابل تھا‘ واشنگٹن کو اس بات کا ادراک تھا کہ دیگر ممالک ایسا کرنے کے متحمل نہیں تھے۔
ترجمان نے نشاندہی کی کہ جب کہ امریکا نے روس سے توانائی کی درآمدات پر پابندی عائد کر رکھی ہے، امریکی وزارت خزانہ نے عام لائسنس جاری کیے ہیں جو کہ منظور شدہ اداروں کے ساتھ توانائی کے لین دین کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہماری بات چیت کا مقصد روس کو فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو محدود رکھنے پر کام کرتے ہوئے روسی تیل کو عالمی منڈیوں میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے خریداروں کے لیے دستیاب رکھنا ہے تاکہ قیمتوں کو مستحکم کرنے میں مدد ملے جو وبا سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہیں۔
ترجمان نے روسی تیل کی قیمت کی حد کے بارے میں جی 7 ممالک کے 2 ستمبر کے اعلان کا بھی حوالہ دیا جو ان کا کہنا تھا کہ ’ان دونوں اہداف کو آگے بڑھانے میں ایک بڑا قدم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد ایسی خدمات کی فراہمی پر پابندی لگانا ہے جو اس طرح کی تیل کی مصنوعات کی سمندری نقل و حمل کی اجازت دیتی ہیں جب تک کہ قیمت کی حد پر عمل کرنے اور لاگو کرنے والے ممالک کے اتحاد کی طرف سے طے شدہ قیمت کی سطح پر یا اس سے کم خریداری نہ کی جائے۔
محکمہ خارجہ کے اہلکار نے کہا کہ اتحاد اب ’قیمت کی حد کی تلاش سے لے کر ایک کو لاگو کرنے کے اپنے تعاون کو وسیع کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے نشاندہی کی کہ 9 ستمبر کو امریکی محکمہ خزانہ نے روسی فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی سمندری نقل و حمل سے متعلق خدمات پر پابندی کے بارے میں ابتدائی رہنما اصول جاری کیے تھے۔
ان رہنما اصول میں وضاحت کی گئی تھی کہ جی 7 ممالک، یورپی یونین اور امریکا سمیت ممالک کا اتحاد اس پالیسی پر عمل درآمد کرے گا جس میں میری ٹائم ٹرانسپورٹ سے متعلق خدمات کی ایک وسیع رینج کا احاطہ کیا گیا ہے۔
خدمات پر پابندی کے طور پر بنائی گئی پالیسی میں ایک اہم رعایت یہ ہے کہ ’وہ دائرہ اختیار یا عناصر جو اتحاد کی طرف سے مقرر کی جانے والی قیمت کی حد یا اس سے کم پر سمندری روسی تیل کو خریدتے ہیں، واضح طور پر ایسی خدمات حاصل کر سکیں گے۔‘
پاکستان دنیا میں خام پیٹرولیم کا 35 واں سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے اور سال 2021-20 میں اس نے ایک ارب 92 کروڑ ڈالر مالیت کا خام تیل درآمد کیا تھا، روس سے سستا تیل خریدنے سے یقینی طور پر مشکلات کا شکار پاکستانی معیشت پر دباؤ کم ہوگا۔