نیب آرڈیننس میں پارلیمنٹ نے جو ترامیم کی ہیں ان کو تحریک انصاف نے عدالت میں چیلنج کردیا ہے۔ تحریک انصاف کا مؤقف ہے کہ ان ترامیم کے بعد نیب قانون بالکل بے اثر ہو کر رہ گیا ہے۔ ان ترامیم میں ایک ترمیم یہ بھی شامل ہے کہ پچاس کروڑ سے کم ہونے والی کرپشن پر نیب کارروائی نہیں کرسکے گا۔
یہ ترمیم سمجھ سے بالا تر ہے کیا پچاس کروڑ سے کم ہونے والی کرپشن قابل احتساب نہیں ہے۔۔۔؟پچاس کروڑ روپے تک کی کرپشن کی وارداتیں تو عام ہیں۔ سرکاری شعبے میں اربوں روپے کی بدعنوانی خال خال ہوتی ہے۔ بہت بڑے بڑے منصوبوں جن کی مالیت اربوں یا کھربوں میں ہوتی ہے ان میں سے اربوں روپے کی کمیشن کھائی جاتی ہے۔ورنہ عموماً کرپشن لاکھوں اور کروڑوں میں ہی ہوتی ہے۔
نیب قانون کی اس ترمیم سے اب تو عادی مجرموں یعنی وہ سرکاری افسریا کسی سیاسی عہدیدار کو کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ وہ پچاس کروڑروپے تک کی کرپشن کرکے نیب کے دائرہ اختیار سے باہر رہ سکتا ہے۔ اگر کسی نے اربوں روپے کمانے ہوں تو وہ تیس یا چالیس کروڑ روپے تک قسطوں میں کرپشن کرکے اربوں روپے جیب میں ڈال سکتا ہے۔
نیب آرڈیننس پر کئی طرح کے اعتراضات رہے ہیں۔ خاص طور پر نیب کے تفتیش کے طریقہ کار پر تو بہت اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ خود اعلیٰ عدالتوں نے بھی نیب کی تفتیش اور اس کے طریقہ کار پر نیب کے چیئرمین سمیت تحقیق کاروں کی سخت سرزنش کی ہے۔ ایک عمومی تاثر یہ بھی رہا ہے کہ نیب لوٹ مار اور قومی خزانے کو کھربوں کا نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات کو منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکا۔اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ سرکاری مشینری میں موجود بدعنوان اہلکارنیب سے تعاون نہیں کرتے رہے یا پھر نیب کے تفتیش کاروںمیں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ قومی خزانے کو ٹوٹنےوالوں کو ننگا کر کے ان سے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے سکیں یا پھر خود نیب کے اندر موجود کالی بھیڑیں بھی لٹیروں کے ساتھ مل جاتی تھیں۔
کرپشن پاکستان کا ایک بہت بڑا بنیادی مسئلہ ہے۔ کئی سروے رپورٹس آچکی ہیں جن کے مطابق پاکستان میں اربوں روپے روزانہ کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل اور کئی بین الاقوامی ادارے پاکستان میں پھیلتی ہوئی کرپشن پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔
دُنیا کے ہر ملک میں کرپشن کو روکنے کے لئے احتساب کا مؤثر قانون موجود ہے۔کسی ملک نے بھی بدعنوانی کو کھلی چھٹی نہیں دے رکھی۔کئی ملکوں کے وزرائے اعظم، صدور اور وزراء بدعنوانی کے جرم میں سزا پاچکے ہیں۔
پاکستان میں احتساب کو مزید سخت بناے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا لُوٹا ہوا پیسہ ریکورہوسکے اور ملکی خزانے پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو قرارواقعی سزا دی جاسکے۔لٹیروں اور مجرموں سے نرمی کا کوئی جواز نہیں ہے۔