حکومت نے باضابطہ طور پر آئل سیکٹر کی ڈی ریگولیشن کا فیصلہ کرتے ہوئے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو ہدایت دی ہے کہ وہ آئل ریفائنریوں اور مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ مشاورت سے طریقہ کار وضع کرے۔
رپورٹ کے مطابق ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ حکومت نے اوگرا سے کہا ہے کہ وہ مسابقت اور کارکردگی کو فروغ دینے کے لیے آئل سیکٹر کی ڈی ریگولیشن کے حوالے سے شرائط و ضوابط طے کرے۔
تیل، ملک کی توانائی کی ضروریات کا 31 فیصد پورا کرتا ہے، اس منافع بخش اعدادوشمار کے باوجود ایک دہائی سے زائد عرصے سے کوئی ریفائنری قائم نہیں کی گئی، اسی طرح موجودہ ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کی رفتار جدید ترین ٹیکنالوجی کے مطابق برقرار نہیں رکھی گئی۔
یہ اقدام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت اور اوگرا کو 2 دہائیوں کی ڈی ریگولیشن اور گھریلو پیداوار پر مبنی نصف سے زیادہ فراہمی کے باوجود پیٹرولیم سیکٹر کے بہت چھوٹے حصے یعنی لیکوئیفائیڈ پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) میں مسابقت اور کارکردگی کو یقینی بنانے میں چیلنج کا سامنا ہے۔
گزشتہ روز اوگرا نے چیف سیکریٹریز اور ضلعی حکام کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کیں کہ ایل پی جی یکم ستمبر کو اوگرا کی جانب سے مطلع کردہ قیمتوں پر فروخت کی جائے جس میں پروڈیوسرز کے لیے فی 11.8 کلوگرام سلنڈر 2 ہزار 13 روپے اور صارفین کے لیے 2 ہزار 496 روپےمیں فروخت کا اعلان کیا گیا ہے۔
دوسری جانب مارکیٹ میں اس کی قیمت 2700 روپے سے 3 ہزار روپے فی سلنڈر کے درمیان ہے اور سیلاب سے متاثرہ لوگوں اور موسم سرما کی معمول کی ضروریات کے لیے عطیہ دہندگان کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر یہ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
اوگرا نے ضلعی حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ منافع خوروں کے خلاف کارروائی شروع کریں، ایل پی جی پلانٹس اور ڈسٹری بیوٹرز کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عام لوگوں کی سہولت کے لیے گیٹ/ پاسز اور رسیدوں پر ایل پی جی کی فروخت کی قیمت واضح طور پر ظاہر کریں۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ پیٹرول کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بعد اوگرا بہتر انداز میں بغیر کسی تعزیری کارروائی کے ایسی ہدایات جاری کر سکے گا۔
اوگرا نے 7 ستمبر کو تمام ریفائنریز، مارکیٹنگ کمپنیوں اور آئل کمپنیز ایڈوائزری کونسل (او سی اے سی) اور آئل مارکیٹنگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (او ایم اے پی) سمیت مارکیٹنگ ایسوسی ایشنز کا ایک مشاورتی اجلاس طلب کیا ہے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے کہا گیا ہے کہ وہ آئل سیکٹر کی ڈی ریگولیشن پر اپنی تجاویزات پیش کریں، ان کا کہنا تھا کہ ڈی ریگولیشن کا مطلب پرائیویٹ کمپنیوں کو تیل کی قیمتوں کا تعین اور ریٹیل ڈسٹری بیوشن کی سہولت فراہم کرنا ہے۔
یہ کمپنمیاں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ڈسٹری بیوشن مارجن کے حصول کی بجائے مسابقتی بنیادوں پر قیمتیں خود طے کرنے کے لیے آزاد ہوں گی۔
ریٹیل آئل مارکیٹنگ کے کاروبار کو سنبھالنے والے سینئر عہدیداروں کا خیال ہے کہ ڈی ریگولیشن سے فریٹ ایکویلائزیشن مارجن کے ذریعے ملک بھر میں حکومت کی جانب سے مقرر کردہ یکساں ایکس ڈپو قیمت سے نجات مل جائے گی۔
اس کے نتیجے میں کراچی، ملتان اور راولپنڈی میں یہ قیمتیں 2 سے 3 روپے فی لیٹر سستی ہو سکتی ہیں کیونکہ ان شہروں میں ریفائننگ موجود ہے لیکن دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں یہ 6 سے 8 روپے فی لیٹر تک بڑھ سکتی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کے چند سینئر سیاستدان اس بنیاد پر ڈی ریگولیشن پر زور دے رہے ہیں کہ اس سے مسابقت کو فروغ ملے گا اور صارفین بہتر قیمت اور بہترین معیار کے انتخاب میں آزاد ہوں گے۔
تاہم انہوں نے مارکیٹ کا جائزہ نہیں لیا جہاں کوئی بھی، حتٰی کہ پٹرولیم ڈویژن یا اوگرا میں سے کوئی اسلام آباد میں بھی اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ کون سی کمپنی یا ریٹیل پمپ بہترین مصنوعات پیش کر رہا ہے۔
حکومت نے آئل انڈسٹری کے ساتھ باضابطہ طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ آئی ایف ای ایم میکانزم کو بھی ڈی ریگولیٹ کیا جائے جو کہ فی الوقت پورے ملک میں قیمتوں کو یکساں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ قیمتیں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک تیل کمپنی سے دوسری کمپنی میں نمایاں طور پر مختلف ہوں گی، بندرگاہوں اور ریفائنریوں کے قریب موجود صارفین کو فائدہ ہوگا جبکہ ان سے دور رہنے والوں کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی، نقل و حمل کی لاگت کے لحاظ سے یہ فرق فی لیٹر ایک روپے سے 5 روپے تک کے درمیان ہو سکتا ہے۔