وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے سیلاب کو بڑی ماحولیاتی آفت اور انسانی بحران قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ گلوبل وارمنگ کی تباہ کاریوں سے شدید متاثر ہونے والے پاکستان کی فوری امداد کرے۔
نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈی نیشن سینٹر میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار اور چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ رواں سال مون سون سیزن کے دوران پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کوحالیہ تاریخ میں دنیا میں سب سے بڑی موسمیاتی آفت اور نقصان کا سامنا ہے جس میں 3کروڑ 30 لاکھ آبادی سیلاب سے شدید متاثر ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا حالیہ تاریخ میں دنیا کے اندر سب سے بڑی موسمیاتی تبدیلی المیہ ہے جس کا پاکستان کو سامنا ہے، جن علاقوں میں اس وقت طوفانی بارشیں ہوئی ہیں وہاں سب سے کم بارشیں ہوتی تھیں، یہ ہماری 30 سال کی اوسط میں 500 گنا زیادہ بارشیں تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجہ میں 3 کروڑ 30 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی ، اس نقصان کا پیمانہ بہت بڑا ہے، امریکا اور جاپان اس طرح کی قدرتی آفات کے سامنے بے بس نظر آئے، پاکستان میں اس المیے کا پیمانہ حکومت اور وسائل کے مقابلے میں بہت بڑا ہے تاہم ہمارا عزم چٹان کی طرح مضبوط ہے۔
‘پوری قوم کو مل کر آفت کا مقابلہ کرنا ہے’
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل 2005 میں زلزلہ اور سیلاب میں ہماری قوم نے ثابت کیا کہ کہ وہ مل کر اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ان کا جذبہ متاثر نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا کوئی ادارہ یا کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس کے لیے پوری قوم نے مل کرمقابلہ کرنا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں بارش 1500 ملی میٹر تک ہوئی جہاں یہ بارش معمول کے مطابق 15 یا 20 ملی میٹر تک ہوتی تھی، زیادہ بارش کے سندھ اور بلوچستان میں برے اثرات مرتب ہوئے ، اس کے علاوہ جنوبی پنجاب ، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا اور کشمیر کے کچھ علاقے بھی متاثر ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو تباہی ہوئی اس کی بڑی وجہ تیز بارش اور طغیانی تھی، انفراسٹرکچر کا نظام بلوچستان میں بڑی تعداد میں تباہ ہوا ہے، ملک سے بلوچستان کو جوڑنے والی 14 بڑی شاہراہیں جن کا ملکی معیشت میں بڑا کردار ہے وہ متاثر تھیں تاہم ان میں سے این ایچ اے کی کاوشوں سے اور مسلح افواج کے انجینئرز نے 11 کو بحال کردیا ہے صرف 3 ہائی ویز پر جزوی بلاک ہیں ان کی بحالی کیلئے دن رات کام ہو رہا ہے جو چند دنوں میں بحال ہو جائیں گی۔
انہوں نے بتایا کہ سندھ میں پانی آہستہ آہستہ اتر رہا ہے، یہاں علاقے سمندر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
یہاں تمام ادارے اور صوبائی انتظامیہ مل کر بحالی کے لئے کوشاں ہیں، یہاں 230 اموات ہوئیں، سڑکیں متاثر ہوئیں ، منڈا ہیڈورکس کو نقصان پہنچا، پنجاب میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو سیلاب نے متاثر کیا، یہاں 54 افراد جاں بحق ہوئے، فصلوں، لائیوسٹاک کو نقصان پہنچا ، یہاں تیزی سے ریکوری کا عمل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی سطح پر بڑے پیمانے پر ہونے والے نقصان کی بحالی بھی وفاقی ادارے اسی جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں، 81 متاثرہ گرڈ سٹیشنوں میں سے 69 بحال ہو چکے ہیں، 881 فیڈر متاثر ہوئے ان میں سے 758 بحال ہو چکے ہیں، 123 کی بحالی پر کام جاری ہے، 8 ٹرانسمیشن لائنوں کو نقصان پہنچا، صوبہ بلوچستان میں متاثرہ لائینوں میں سے 6 بحال ہوچکی ہیں۔
ملک کو ماحولیاتی تباہی اور انسانی المیے کا سامنا ہے’
انہوں نے بتایا کہ ٹیلی مواصلات کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا، ساڑھے تین ہزار ٹیلی مواصلات ٹاور متاثر ہوئے، ان میں سے 2900 بحال ہوچکے جبکہ باقی کی بحالی کیلئے وزیراعظم نے 48 گھنٹے کا وقت دیا ہے، ان کی 600 سے زیادہ ٹیمیں فیلڈ میں کام کررہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج وہ وقت ہے کہ جب ہم سب کو مل کر اپنے حصے کا کام کرنا چاہئے جبکہ کسی قوم پر کوئی مشکل آتی ہے تو یہ اس کا امتحان ہوتا ہے، یہ اس کیلئے موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنی یکجہتی سے وہ کام کر گزرے جو عام حالات میں نہ کر سکے، ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم مشکل کی اس گھڑی سے نکلیں۔
احسن اقبال نے عالمی برادی سے پاکستان کے لیے امداد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ملک بڑی ماحولیاتی تباہی اور انسانی المیے کا سامنا کر رہا ہے جو گلوبل وارمنگ کے باعث موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر ہونے والی کاربن امیشن میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے جب کہ پاکستان اس ماحولیاتی تباہی کے نقصانات اور خطرات کا شکار ہونے والا ساتواں سب سے بڑا ملک ہے، یہ صورتحال فوری انسانی رد عمل کا تقاضا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ از خود ریلیف تقسیم کرنا چاہتے ہیں وہ اس سلسلے میں بھی متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں تاکہ آخری شخص تک یہ امدادی سامان پہنچ سکے۔
احسن اقبال نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ پاکستان کو ایک سنگین المیے کا سامنا ہے جو عالمی حدت کی وجہ سے ہے جو پاکستان کا پیدا کردہ نہیں۔
انہوں نے کہا پاکستان موسمیاتی تباہی کے اعتبار سے دنیا کے 7 ممالک میں شامل ہے، تباہی بہت بڑی ہے جس کے لیے بڑے پیمانے پر امداد کی ضرورت ہے، ہم اپنے پاکستانیوں ، تارکین وطن اور عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ متاثرین کی بھرپور مدد کریں تاکہ متاثرہ علاقوں میں زندگی معمول پر آ سکے، ہم اپنے ترقیاتی شراکت داروں کی امداد کے بھی منتظر ہیں تاکہ لوگ اپنے گھروں میں آباد ہو سکیں اور معمول کی زندگی بسر کر سکیں۔
2022موسمیاتی تبدیلی کی تلخ ترین حقیقتیں سامنے لایا، چیئرمین این ڈی ایم اے
چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل اختر نواز سال 2022 موسمیاتی تبدیلی کی تلخ ترین حقیقیتیں لے کر سامنے آیا، اس سال بہار کا موسم نہیں آیا، اس سال ہیٹ ویو کی 4 لہریں آئیں، ملک کے طول و عرض میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات ہوئے، مون سون کی غیر معمولی بد ترین 190 فیصد سے زیادہ بارشیں ڈھائی سے تین ہفتے قبل شروع ہوئیں۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں 436 فیصد اور سندھ میں 464 فیصد زیاد بارشیں ہوئیں، یہ بارشیں اپنے معمول کے علاقوں کے بجائے ان علاقوں میں ہوئیں جہاں عمومی طور پر کم بارشیں ہوتی ہیں جس کے باعث غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، اس دوران خیرپختونخوا اور گلگت بلستان میں گلوف کے واقعات بھی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا اب تک ملک بھر میں 12 سو 65 لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں جب کہ 12 ہزار 577 افراد زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ٹوٹل 5 ہزار 563 کلومیٹر کی سڑکوں کو نقصان ہوا ہے، 243 پل، 10 لاکھ 42 ہزار 723 گھر تباہ ہوئے ہیں، اس دوران 7 لاکھ 35 سے زائد لائیو اسٹاک کا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں ریسکیو ایںڈ ریلیف آپریشن جاری ہے، صورتحال کو دیکھتے ہوئے قومی ایمرجنسی نافذ کی گئی، پاکستان آرمی کی خدامات حاصل کی گئیں۔
انہوں نے بتایا کہ یو این فلیش اپیل کے لیے این ڈی ایم اے بنیادی ضروریات کا جائزہ تیار کیا جو اقوام متحدہ کی فلیش اپیل کے لیے ضروری تھا جس کا عالمی برادری کی جانب بہت مثبت رد عمل مل رہا ہے، اسی طرح نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے سروے کا کام شروع کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک جانب سے گزشتہ 4 روز کے دوران امدادی سامان کی 29 پروازیں آچکی ہیں ، ان میں ترکیہ کی 10، یو اے ای کی 11، چین کی 4، قطر کی 2 جبکہ فرانس اور ازبکستان کی جانب سے ایک ایک پرواز آئی ہے، مزید دیگر ممالک سے پروزیں ابھی آنی ہیں، آنے والے سامان میں 2 ہزار 728 ٹینٹس، 98 ٹنز کھانے پینے کی اشیا، ترکیہ 50 بوٹس جو سندھ میں امدادی کارروائیوں میں استعمال کی جارہی ہیں جب کہ فرانس اور قطر کی جانب سے ایک میڈیکل ٹیم بھی آئندہ دو روز کے دوران پہنچنے والی ہے۔
مقدس فریضہ سمجھ کر امداد میں مصروف ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر
نیشنل فلڈ رسپانس سینٹر میں سیلاب کی صورتحال اور امدادی کاموں سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ حالیہ بارشوں کے باعث پیدا ہونے والے بحران کے دوران پاک فوج امدادی کارروائیوں میں مصروف ہے، پاک فوج کا ہر افسر اور جوان ریسکیو اور ریلیف آپریشن کے دوران مقدس فریضہ سمجھ کر امدادی کاموں میں حصہ لے رہا ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اسی جذبے کے تحت جاری امدادی کارروائیوں کے دوران لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈئر محمد خالد، میجر طلحہ، نائیک مدثر فیاض اپنے عوام کی خدمت کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ جولائی اور اگست میں ہونے والی کور کمانڈر کانفرنس میں بھی اس قدرتی آفت کے دوران قوم کی ہر ممکن مدد کا عزم کیا گیا اور اس حوالے سے آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ نے خصوصی ہدایات جاری کیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف کی ہدایات کے مطابق مشکل کی اس گھڑی میں ہم پاکستان کے عوام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، چاہئے اس مقصد کے لیے کتنا ہی وقت اور کوششیں کرنی پڑیں۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن کے لیے آرمی کی سطح پر کمانڈر آرمی ایئر ڈیفینس کمانڈ کی سربراہی میں ایک آرمی فلڈ ریلیف اینڈ ریلیف کوارڈینیشن سینٹر قائم کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ریلیف آپریشن کے تحت افواج پاکستان، پاکستان رینجرز، ایف سی اور دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جامع حکمت عملی کے تحت امدادی کاموں میں مصروف ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آرمی چیف نے سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے بارش سے متاثرہ علاقوں کے تفصیلی دورے کیے اور وہاں جاری امدادی کارروائیوں کا جائزہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تمام فارمیشنز تعینات ہیں اور امدادی کارروائیوں میں مصروف عمل ہیں، آرمی ایویشن، ایئر فورس اور نیوی کے ہیلی کاپٹرز متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اینڈ ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں، خراب موسم، مشکل صورتحال کے باوجود 276 پروازوں کے دوران اپنی زندگیوں کے خطرے میں ڈال کر لوگوں کو ریسکیو کیا گیا، متاثرین تک امداد پہنچائی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں کے پی میں 1125 اور ملک کے دیگر حصوں سے آرمی ہیلپ لائن 1135 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے، ملک میں 47 ریلیف کیمپس قائم ہیں جن میں 50 ہزار سے زائد متاثرین کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی کی جانب سے قائم کردہ 250 طبی کیمپوں میں 83 ہزار سے زائد مریضوں کو مفت طبی امداد فراہم کرچکا ہے، اس کے علاوہ سندھ کے لیے اضافی میڈیکل اور انجینئرنگ کور کو تعینات کردیا گیا ہے جو امدادی کاموں میں مصورف عمل ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ آرمی نے 1 ہزار 685 ٹن 3 دن کا راشن اور 25 ہزار تیار کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جاچکے ہیں، آرمی کے 285 امدادی کیمپوں میں 2 ہزار 200 ٹن راشن 11 ہزار ٹن سے زائد وزن کی اشیائے ضروریہ اور 10 لاکھ 70 ہزار سے زائد ادویات پورے پاکستان کے لوگوں نے جمع کرائی ہیں۔
عوام کا اعتماد افواج پاکستان کا اثاثہ ہے’
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ اب تک 17 سو 93 ٹن راشن، 277 ٹن اشیائے ضرویہ، 7 لاکھ 70 ہزار ادویات متاثرین میں تقسیم کی جاچکی ہیں، 135 پروازوں کے دوران ایک ہزار 521 افراد کو ریسکیو کیا، پاکستان نیوی نے اب تک 10 ہزار متاثرین کو ریسکیو کیا ہے۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ متاثرین کی امداد کے لیے آرمی ریلیف فنڈ قائم کردیا گیا ہے جس میں لوگ دل کھول کر عطیات جمع کرا رہے ہیں، آرمی کے جنرل آفیسرز نے ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا ہے جب کہ دیگر افسران اور جوان بھی فنڈ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماثرین کی مدد کے لیے دوست ممالک کے رہنما میں بھی آرمی چیف کے ساتھ رابطے میں ہیں، اظہار یکجہتی کے لیے یوم دفاع کے موقع پر جی ایچ کیو میں ہونے والی تقریب موخر کردی ہے، شہدا پاکستان ہمارا اثاثہ ہیں جن کے دم سے ہم آج محفوظ اور آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، شہد اور ان خاندانوں کی قربانیوں کو کبھی بھلا نہیں سکتے، عوام کا اعتماد افواج پاکستان کا اثاثہ ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پاکستان آرمی مشکل کی ہر گھڑی میں قوم کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے، اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے حالیہ قدرتی آفت میں بھی تمام وسائل کو بروئے کار لا کر اس ناگہانی آفت سے نجات حاصل کریں گے۔
چیئرمین نیشنل فلڈ ریسپانس میجر جنرل محمد ظفر اقبال نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے این ایف آر سی سی کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کے ذمہ سب سے اہم کام موصول ہونے والی امداد کو شفاف طریقے سے ہر متاثرہ شخص تک پہنچایا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام وفاقی اور صوبائی وزارتوں اور محکموں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا ہے تاکہ اس کام کو آگے لے کر جا سکیں، اس سیلاب سے تعمیر نو کے حوالے سے بھی یہ ادارہ کا م کرے گا۔ مختلف وزرا بھی اس کے ممبران ہیں، پاک فوج بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔
نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کا اجلاس
قبل ازیں، اسلام آباد میں نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر میں سیلاب کی صورتحال پر پہلا باضابطہ اجلاس منعقد کیا گیا۔
اجلاس کے دوران سیلابی صورتحال کا جائزہ لیا گیا، اجلاس میں وفاقی وزیر احسن اقبال، ڈی جی آئی ایس پی آر، چیئرمین این ڈی ایم اے سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی۔
اجلاس کے دوران سیلاب کی تازہ صورتحال اور متاثرہ افراد تک رسائی کی کوششوں پر بریفنگ دی گئی۔
اس موقع پر سیلاب متاثرہ علاقوں میں مواصلاتی ڈھانچے کی بحالی کیلئے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا۔