بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ: شہباز گل کی درخواست ضمانت خارج

اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کی درخواست ضمانت خارج کردی۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے گزشتہ روز محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے شہباز گل کی درخواست ضمانت خارج کی۔

یاد رہے کہ شہباز گل نے گزشتہ ہفتے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے چیف آف اسٹاف شہباز گل کو نجی نیوز چینل ‘اے آر وائی’ پر متنازع بیان دینے کے بعد اسلام آباد پولیس نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست کو حراست میں لے کر ان کے خلاف تھانہ کوہسار پولیس نے سٹی مجسٹریٹ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔

گزشتہ روز اسلام آباد ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں شہباز گل کی درخواست ضمانت پر ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کی تھی۔

دوران سماعت ملزم کے وکیل نے کہا تھا کہ شہباز گل نے بغاوت کے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں، اس سارے بیان پر کسی جگہ پر غلطی فہمی پیدا ہوئی ہے، شہباز گل اس غلط فہمی کو دور کرنے پر تیار ہیں، شہباز گل معافی مانگنے پر بھی تیار ہیں۔

ان کے وکیل نے کہا تھا کہ طیارہ حادثے میں ایک غلط ٹوئٹ کی گئی جسے بعد میں پھیلا دیا گیا، شہباز گل نے اس ٹوئٹ پر سزا کا مطالبہ کیا تھا، جس کو بغاوت کہا گیا وہ بغاوت ہے کہاں، بغاوت کا کوئی ایک فقرہ تو بتایا جائے جس سے فوج کی تقسیم ہوتی ہو، اسٹریٹجک میڈیا سیل کے الٹے سیدھے کاموں کا مقصد فوج اور پی ٹی آئی کو لڑانا ہے۔

وکیل نے کہا تھا کہ انہوں نے فقروں کی بنیاد کو کیوں تبدیل کیا، وہ میرے مؤکل کی کہی ہوئی بات کو اپنے معنی کیسے دے سکتے ہیں، یہ کہاں کا قانون ہے کہ آپ کسی کو پکڑے اور نازک اعضا پر ٹارچر کریں، نازک اعضا پر تشدد کر کے شہباز گل کی زندگی سے کھیلا گیا، میرے مؤکل کی درخواست ضمانت منظور کی جائے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا اغاز کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کے متن میں جو الفاظ ہیں وہ کبھی کسی نے استعمال نہیں کیے، ملزم نے بیوروکریسی کے متعلق الفاظ استعمال کیے، بیوروکریسی حکومت کی مشینری ہوتی ہے، اس کو کہا گیا حکومت کا حکم نہ مانو، بیوروکریسی اگر حکومت کے کام نہیں کرے گی تو کون کرے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاک آرمی کے افسران کے خلاف منظم طریقے سے ملزم نے بات کی، ملزم کے الفاظ نے پاک فوج میں بغاوت کی کوشش کی، ملزم نے پاک فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی، سپاہی سے لے کر برگیڈیئر رینک تک افسران کے جذبات مجروح ہوئے، افسران کو حکم نہ ماننے کا کہنا ادارے میں بغاوت کی کوشش تھی، اس لیے ان کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے شہباز گل کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج جاری کیا گیا جس میں ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔

شہباز گِل کے خلاف مقدمہ

شہباز گِل کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 (مشترکہ ارادہ)، 109 (اکسانے)، 120 (قید کے قابل جرم کے ارتکاب کے لیے ڈیزائن چھپانے)، 121 (ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنا)، 124 اے(بغاوت) 131 (بغاوت پر اکسانا، یا کسی فوجی، بحری یا فضائیہ کو اپنی ڈیوٹی سے بہکانے کی کوشش کرنا)، 153 (فساد پر اکسانا)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 506 (مجرمانہ دھمکی کی سزا) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔

شہباز گل کی گرفتاری کے ایک روز بعد اسلام آباد کچہری نے ڈاکٹر شہباز گِل کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا، دو دن بعد رہنما شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

پولیس نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرنے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی، اسے بھی ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان خان نے مسترد کر دیا تھا۔

16 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہباز گل کے دوبارہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیشن جج کو اسے اسی دن سننے کا حکم دیا تھا۔

17 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی نظرثانی درخواست منظور کرلی تھی اور شہباز گل کو مزید 48 گھنٹوں کے لیے پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

19 اگست کو اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے شہباز گِل کے ریمانڈ میں توسیع کی اسلام آباد پولیس کی درخواست معطل کرتے ہوئے انہیں پمز ہسپتال بھیج دیا تھا، 22 اگست کو ان کا مزید 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا تھا۔

شہباز گل کا متنازع بیان

9 اگست کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے نجی ٹی وی چینل ‘اے آر وائی’ نیوز کو اپنے شو میں سابق وزیرِا عظم عمران خان کے ترجمان شہباز گل کا تبصرہ نشر کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا بیان ‘مسلح افواج کی صفوں میں بغاوت کے جذبات اکسانے کے مترادف تھا’۔

اے آر وائی کے ساتھ گفتگو کے دوران ڈاکٹر شہباز گل نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت، فوج کے نچلے اور درمیانے درجے کے لوگوں کو تحریک انصاف کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘فوج میں ان عہدوں پر تعینات اہلکاروں کے اہل خانہ عمران خان اور ان کی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں جس سے حکومت کا غصہ بڑھتا ہے’۔

انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کا ‘اسٹریٹجک میڈیا سیل’ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور مسلح افواج کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کے لیے غلط معلومات اور جعلی خبریں پھیلا رہا ہے۔

پیمرا کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا کہ اے آر وائی نیوز پر مہمان کا دیا گیا بیان آئین کے آرٹیکل 19 کے ساتھ ساتھ پیمرا قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں