الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے چوہدری شجاعت حسین کی درخواست پر مسلم لیگ (ق) کے انٹراپارٹی انتخابات روک دیے جو 10 اگست کو ہونے تھے۔
الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ق) کے پارٹی الیکشن رکوانے کے لیے چوہدری شجاعت حسین کی درخواست پر چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے سماعت کی، اس موقع پر چوہدری سالک حسین سمیت دیگر اراکین الیکشن کمیشن پہنچے۔
سماعت کے دوران چوہدری شجاعت کے وکیل عمر اسلم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا ایک نام نہاد اجلاس ہوا جس میں پارٹی صدر اور سیکریٹری جنرل کو عہدے سے ہٹایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے حوالے سے پنجاب کے سیکریٹری کامل علی آغا نے ایک لیٹر جاری کیا، ضابطے کے تحت الیکشن کمیشن کو ایسی کسی تبدیلی سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا طریقہ کار پارٹی آئین کے آرٹیکل 43 میں درج ہے، سینٹرل ورکنگ کمیٹی میں 150 ارکان کو جنرل کونسل نامزد کرتی ہے، جبکہ 50 ارکان پارٹی صدر کے نامزد کردہ ہوتے ہیں، جنرل کونسل کی جانب سے 150 ارکان کے انتخاب کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔
عمر اسلم نے کہا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے پاس پارٹی صدر کو ہٹانے کا کوئی اختیار نہیں، پارٹی صدر صرف مستعفی ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج تک پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا انتخاب نہیں ہوا، کمیٹی اجلاس میں شریک ہونے والے ارکان کی فہرست بھی موجود نہیں ہے، سینٹرل ورکنگ کمیٹی کی عدم موجودگی میں پارٹی الیکشن کمیشن بھی تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔
سماعت کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے تک اسٹیٹس کو برقرار رہے گا، کمیشن کے فیصلے تک کسی بھی اقدام کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔
بعد ازاں چیف الیکشن کمشنر نے مسلم لیگ (ق) کے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی آئندہ سماعت 16اگست تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ق) کے انٹرا پارٹی انتخابات 10 اگست کو شیڈول ہیں جسے چوہدری شجاعت حسین نے بطور پارٹی سربراہ چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے گزشتہ روز چوہدری شجاعت حسین کی انٹرا پارٹی الیکشن رکوانے کی درخواست آج سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔
ایک ہفتے قبل مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی نے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا تھا کہ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کو پارٹی کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب چوہدری شجاعت حسین نے چند روز قبل بطور پارٹی سربراہ، پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے اراکین اسمبلی کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں اپنے کزن چوہدری پرویز الہٰی کو ووٹ نہ دینے کے لیے خط لکھا تھا۔
سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدارت مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ 10 روز کے اندر پارٹی عہدوں کے لیے نئے انتخابات کرائے جائیں گے اور 5 رکنی الیکشن کمیشن بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد سے مسلم لیگ (ق) کے ترجمان کے جاری کردہ ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
مسلم لیگ (ق) کے ترجمان نے بیان میں مزید کہا تھا کہ سینیٹر کامل علی آغا پارٹی کے پنجاب چیپٹر کے جنرل سیکریٹری ہیں، اس لیے وہ پارٹی صدر کے خلاف کوئی فیصلہ لینے کا اختیار نہیں رکھتے۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں مسلم لیگ (ق) کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری جنرل طارق بشیر چیمہ، صوبائی صدور اور مرکزی عہدیداران سمیت پارٹی ارکان نے شرکت کی تھی جس میں شرکا نے متفقہ قراردادوں کے ذریعے چوہدری شجاعت کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
اجلاس میں مسلم لیگ (ق) سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے صدور نے گزشتہ ہفتے لاہور میں ہونے والے سینٹرل ورکنگ کمیٹی اجلاس سے اظہار لاتعلقی کیا تھا۔