حکومت 19 مئی کو غیر ضروری اور لگژری آئٹمز کی درآمد پر عائد کی گئی پابندیاں ہٹانے کے لیے تیار ہوگئی ہے جبکہ ملک کی برآمدات کو مسابقتی بنانے کے لیے رواں مالی سال کے دوران بجلی پر فی یونٹ 9 سینٹ اور گیس پر فی یونٹ 9 ڈالر سبسڈی فراہم کرے گی۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ اتوار کے روز اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کا خصوصی ورچوئل اجلاس شیڈول تھا جس میں توانائی پر سبسڈی کی منظوری دی جانی تھی، لیکن پھر آخری لمحات میں مزید دیگر اہم معاملات پر غور کے لیے اسے ایک دن کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
ذرائع نے بتایا کہ حکومت کو رواں ہفتے کے دوران دوست ممالک سے تقریباً 3 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے، حکومت 5 برآمدی شعبوں کی مدد کرنے کے ساتھ درآمدی ادائیگیوں کو کلیئر کرکے 85 میں سے زیادہ تر اشیا کی درآمدات پر عائد پابندیوں میں (موبائل فون اور آٹوموبائل کے علاوہ) عارضی مدت کے لیے نرمی کرکے مارکیٹ کو اعتماد اور مثبت احساس دلانا چاہتی ہے۔
توانائی اور خزانہ کی وزارتوں اور برآمدی شعبوں کے ساتھ مشاورت سے وزارت تجارت نے 5 برآمدی شعبوں یعنی پٹ سن، چمڑہ، قالین، آلات جراحی اور کھیلوں کے سامان پر یکم جولائی 2022 سے 30 جون 2023 تک بجلی پر 9 سینٹ فی یونٹ سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ درآمد شدہ اور ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) بھی ان شعبوں کو 9 ڈالر فی یونٹ سبسڈی فراہم کی جائے گی جبکہ اس وقت 6.5 ڈالر فی یونٹ (ملین برٹش تھرمل یونٹس،ایم ایم بی ٹی یو) فراہم کی جارہی ہے۔
یہ شرح ان تمام 5 شعبوں کے لیے ملک بھر کے تمام حصوں کے لیے بلاتفریق لاگو ہوگی۔
اس طرح کراچی کی سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے صارفین کو اسی رعایتی ٹیرف پر آر ایل این جی فراہم کی جائے گی جبکہ لاہور میں واقع سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کے 5 برآمدی شعبوں کے صارفین کے لیے بھی یہی ٹیرف نافذ ہوگا۔
اس وقت ملک میں قدرتی گیس کی قلت کے باعث نئے صنعتی کنکشن دیے جانے پر پابندی عائد ہے۔
حکومت پہلے ہی 23-2022 کے وفاقی بجٹ میں ان شعبوں کو رعایتی ٹیرف پر توانائی کی فراہمی کے لیے 60 ارب روپے مختص کر چکی ہے، ان 60 ارب روپے میں سے 20 ارب روپے بجلی اور 40 ارب روپے آر ایل این جی کے لیے پر سبسڈی کے لیے مختص ہیں۔
اس سبسڈی کے لیے سلسلے میں وزارت خزانہ مالی ضمانت دے گی کہ اگر عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے پاور اور پیٹرولیم ڈویژن کو اضافی فنڈز کی ضرورت پڑی تو اضافی فنڈز فراہم کیے جائیں گے، تاکہ برآمدی شعبے کو توانائی کی سپلائی غیر تبدیل شدہ نرخوں پر جاری رکھی جا سکے۔
اس سلسلے میں اعلیٰ سطح پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاور اور پیٹرولیم ڈویژنز کو وزارت خزانہ کو پیشگی آگاہ کرنے اور ای سی سی سے سپلیمنٹری گرانٹ کی منظوری کے لیے بروقت سمری بھیجنے کی ضرورت ہوگی۔
توانائی کی قیمتوں کا معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزارت توانائی، وزارت پیٹرولیم اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندوں کے اجلاس میں اصولی طور پر کیے گئے فیصلے کے بعد منظوری کے لیے ای سی سی کے سامنے آتا ہے۔
پالیسی سازی کی سطح پر یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ علاقائی سطح پر مسابقتی ریٹ نے برآمدات میں اضافے کے لیے لانچنگ پیڈ کا کام کیا جو گزشتہ مالی سال میں سالانہ بنیاد پر 26 فیصد اضافے کے ساتھ 32 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، اس لیے برآمدات میں اضافے کو برقرار رکھنے کے لیے آئندہ سالوں میں بھی مسابقتی ریٹس کو جاری رکھا جائے گا۔