سینیٹ سیکریٹریٹ میں توشہ خانہ کے انتظام اور قواعد و ضوابط کے حوالے سے نجی بل جمع کرایا گیا ہے جس میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ حکومتی عہدیداران اور ان کے اہلِ خانہ کو توشہ خانہ کے تحائف رکھنے یا خریدنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر بہرامند خان تنگی نے یہ بل جمع کروایا ہے ۔ ایوانِ بالا میں اس بل کو ‘پرائیویٹ ممبر ڈے’ پر پیش کیا جائے گا۔
1974 میں قائم ہونے والے توشہ خانہ کا انتظام کابینہ ڈویژن کے پاس ہے، جس میں بیرونی ممالک کی حکومتوں، ریاستوں کے سربراہان اور غیر ملکی معززین کی طرف سے حکومتی عہدیداران، اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور دیگر حکام کو دیے گئے قیمتی تحائف کو رکھا جاتا ہے۔
توشہ خانہ میں بلٹ پروف کاریں، سونے کے سوینئر، بیش قیمت پینٹنگز، گھڑیاں، زیورات، قالینیں اور تلواروں جیسا قیمتی سامان ہوتا ہے۔
توشہ خانہ اور اس میں رکھے بیش قیمت تحائف پر سیاسی بحث و مباحثہ شروع ہو گیا ہے کیونکہ وزیرا عظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد الزام لگایا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے دوست ملک سے ملنے والے مہنگے تحائف بیچ دیے ہیں، پی ٹی آئی کے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ’اپنے اثاثے بیچنا (توشہ خانہ سے خریدنے کے بعد) جرم نہیں ہے‘۔
بعد ازاں اتحادی حکومت سے تعلق رکھنے والے اراکین متعدد بار عمران خان پر توشہ خانہ کے تحائف رکھنے کا تذکرہ کرکے عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
آج پیش کیے گئے بل میں بتایا گیا ہے کہ توشہ خانہ میں رکھے تمام تحائف کی ذمہ دار کابینہ ڈویژن پر ہوگی، ایک تجزیاتی کمیٹی بھی قائم کی جانی چاہیے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ملنے والے تمام تحائف کو محفوظ اور شفاف طریقے سے جمع کرایا گیا ہے۔
بل کے مطابق یہ کمیٹی وفاقی کابینہ کو سالانہ رپورٹ پیش کرے گی جس میں تحائف کی وصولی، بیچنے کی تفصیلات سمیت قومی خزانے میں رقم جمع کرانے کی بھی تفصیل شامل ہوگی جبکہ توشہ خانہ کے حوالے سے ‘ٹرمز آف ریفرنسز’ کو بھی مرتب کیا جائے گا۔
اس بل میں تحائف کو جمع کرنے، برقرار رکھنے اور فروخت کرنے سے متعلق طریقہ کار کا بھی بتایا گیا ہے، بل کے مطابق عوامی عہدیداران، ان کے خاندان کے افراد کو براہ راست یا نیلامی کے ذریعے توشہ خانہ سے تحائف خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
مزید بتایا گیا کہ عہدیدران یا ان کے رشتہ داروں کو تحائف کی کسی بھی قسم کو پیسے جمع کروانے پر اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
عوامی عہدیدران ملنے والے تمام تحائف فوری طور پر کابینہ ڈویژن کے توشہ خانہ میں جمع کروائیں گے، چاہے اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔
بل میں مزید کہا گیا کہ اگر چیک کرنے پر پتا چلتا ہے کہ کسی نے تحفہ ملنے کی اطلاع نہیں دی ہے تو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
بل کے مطابق کابینہ ڈویژن تحفے کی قیمت کا تعین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں سرکاری شعبے اور نجی ماہرین کے ذریعے کرے گی۔
دونوں کیٹیگری کے ماہرین کی تجویز کردہ تحفے کی قیمت میں فرق 25 فیصد سے کم ہو تو زیادہ قیمت کو تسلیم کی جائے گا، تاہم قیمت میں فرق 25 فیصد سے زیادہ ہوا تو کابینہ سیکریٹری کی تشکیل کردہ کمیٹی تحفے کی قیمت کا تعین کرے گی۔
بل کے مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈسپلے کے لیے مناسب طریقے سے کیٹلاگ کیا جانا چاہیے، بعد ازاں سرکاری عمارتوں یا سربراہان مملکت کی سرکاری رہائش گاہوں میں دکھایا جانا چاہیے۔
بل میں مزید بتایا گیا کہ ہر سال کی پہلی سہ ماہی میں کابینہ ڈویژن کے مجاز افسر اسٹاک کی سالانہ تصدیق کریں گے۔
جو تحائف فروخت کی کیٹیگری میں آئیں گے ان کی عوامی نیلامی کی جائے گی جبکہ نوادرات اور گاڑیوں کو فروخت کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
توشہ خانہ (مینٹیننس اینڈ ایڈمنسٹریشن) 1974 کے (2012 تک نظر ثانی شدہ) رولز صدر، وزیراعظم، سینیٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین، اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر، وفاقی وزرا، وزرائے مملکت، اراکین پارلیمنٹ، پر لاگو ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ سرکاری ملازمین اور حکومتی اداروں کے ملازمین، چاہے وہ ڈیوٹی پر ہوں یا چھٹی پر، حکومت کے امور کے سلسلے میں کسی بھی حیثیت میں خدمات انجام دے رہے ہوں یا کسی دوسرے ادارے، ایجنسی، ادارے یا اتھارٹی کے ساتھ ڈیپوٹیشن پر ہوں سب پر لاگو ہوں گے۔
قوانین کے تحت، خاص قیمت کے تحائف توشہ خانہ میں لازمی جمع کرانے ہوتے ہیں، تاہم حکام کو توشہ خانہ کی کمیٹی کی طرف سے متعین کردہ قیمت کا مخصوص فیصد ادا کرکے یہ تحائف رکھنے کی اجازت ہوتی ہے۔