اینٹی کرپشن یونٹ نے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کو کراچی سے حراست میں لے لیا ہے۔
لاہور پولیس کے ترجمان سید مبشر نے میڈیا کو گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ لاہور پولیس نے اس سلسلے میں اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی لیکن گرفتاری لاہور پولیس نے نہیں کی اور حلیم عادل اینٹی کرپشن یونٹ کی تحویل میں ہیں۔یہ بات پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے ایک ٹوئٹ میں بتائی، ان کا کہنا تھا کہ حلیم عادل شیخ کو رات گئے سادہ لباس میں ملبوس افراد نے گرفتار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی قانون نہیں بچا، یہ صورتحال عدلیہ اور وکلا برادری، میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا امتحان ہے۔
دوسری جانب قائد حزب اختلاف سندھ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری پر ان کی بیٹی عائشہ حلیم نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ میرے والد کو لاہور سے بغیر وارنٹ ساہ لباس میں ملبوس لوگوں نے گرفتار کیا اور 5 گھنٹے گزرنے کے باوجود بھی نہیں بتایا گیا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے۔
عائشہ حلیم کا کہنا تھا کہ پہلے بھی آگاہ کر چکے ہیں کہ میرے والد کی زندگی کو خطرہ ہے، دھمکیاں ملنے پر چیف جسٹس آف پاکستان سمیت دیگر بالا افسران کو خطوط بھی لکھے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد کو رات دیر گئے جس طریقے سے اٹھایا گیا ہے یہ گرفتاری نہیں ہوسکتی، سادہ لباس میں ملبوس لوگوں نے والد کو اغوا کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ روز قبل ہمارے گھر پر پولیس کی بھاری نفری بھیج کر ہراساں کیا گیا، ان پولی موبائلز میں وزیر اعلیٰ ہاؤس کی سیکیورٹی کی موبائلز بھی شامل تھی۔
عائشہ حلیم نے کہا کہ ہمیں کچھ نہیں بتایا گیا کہ حلیم عادل شیخ کو کس جرم میں اٹھایا گیا اور کہاں رکھا گیا ہے، اگر اس ملک میں کوئی قانون موجود ہے تو بتایا جائے یہ ہو کیا رہا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ حلیم کو ماضی میں بھی سندھ حکومت نے سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کیونکہ وہ ان کو بے نقاب کرتے رہے ہیں، ان کے خلاف ایک ماہ قبل دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور ان جرم کا وہ وقت بتایا گیا تھا، اس وقت حلیم عادل ایک ٹیلی ویژن چینل پر لائیو پروگرام کے لیے جا رہے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے جاتا ہیں تو ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جاتا ہے لہٰذا میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کوئی قانون ہے، کیا کوئی ہے جو یہ دیکھے کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟۔
اس کے بعد ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ لاہور پولیس نے حلیم کی گرفتاری سے انکار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ حلیم عادل شیخ کہاں ہے اور وہ ان کی گرفتاری کے کسی منصوبے کے بارے میں نہیں جانتے تو میں پوچھتی ہوں کہ حلیم عادل شیخ کہاں ہیں اور انہیں کس نے اٹھایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اہلخانہ نے لاہور کے گلبرگ تھانے سے رابطہ کیا تھا جس کی حدود سے حلیم کو لے جایا گیا تھا، انہوں نے ٹوئٹ کی کہ پولیس افسر ہمارے اوپر پر ہنسا اور کہا کہ انہیں نہیں معلوم کہ حلیم عادل کہاں ہیں اور انہیں گرفتاری کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔
دیگر ٹوئٹس میں عائشہ نے یاد دہانی کرائی کہ حلیم عادل شیخ پر یہ واضح ہو چکا تھا کہ حکومت سندھ دوران حراست ان کی جان لینے کا ارادہ رکھتی ہے، وہ پہلے بھی انہیں جیل میں مار چکے ہیں اور اس بار میرے والد نے آئی جی، چیف جسٹس سندھ اور چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر اپنی جان کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی تھی۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ حلیم کو سندھ اسمبلی کے اسپیکر کی اجازت کے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ ایوان میں قائد حزب اختلاف تھے۔
پی ٹی آئی رہنما کی بیٹی نے مزید کہا کہ آدھی رات کو سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگوں کی طرف سے بغیر وارنٹ کے کون سی گرفتاریاں کی جاتی ہیں؟ یہ گرفتاری ہے یا پھر اغوا!۔
حلیم کی بازیابی کے لیے درخواست دائر
ادھر لاہور ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ عامر سعید راون کی جانب سے حلیم کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
درخواست میں انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ منگل کی رات لاہور میں سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد نے حلیم کو اٹھایا تھا۔
پولیس سے رابطہ کیا گیا لیکن ابھی تک حلیم کے ٹھکانے کے بارے میں کوئی اپ ڈیٹ نہیں ہیں، درخواست میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی رہنما کو اب تک کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ حلیم کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنے کی ہدایت جاری کی جائے۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی مذمت
دوسری جانب سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے ایک پیغام میں کہا کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ آمریت کے حربے ہیں، ہمیں بتایا نہیں جارہا کہ حلیم بھائی کہاں ہیں، ان کا جرم سچ بولنا ہے جو موجودہ امپورٹڈ حکومت کو گوارہ نہیں۔
عمران اسمٰعیل نے کہا کہ حلیم عادل شیخ کو لاہور سے نامعلوم افراد ساتھ لے کر گئے ہیں، وہ اپنی جان کو لاحق خطرات کے حوالے سے آگاہ کرچکے تھے کہ انہیں حکومت سندھ سے خطرہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حلیم عادل شیخ کی گرفتاری کہیں ظاہر نہیں کی جارہی، ہمیں خدشہ ہے کہ سندھ حکومت کے جرائم پیشہ افراد نے انہیں اغوا کیا ہے، انہیں کسی بھی قسم کا نقصان ہوا تو ذمہ دار سندھ حکومت ہوگی۔
ساتھ ہی انہوں نے عدلیہ اور اداروں سے انصاف دینے کی بھی اپیل کی۔
عائشہ کے بیان کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں نے حلیم عادل کو مبینہ طور پر اٹھائے جانے کی مذمت کی۔
سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا کہ حلیم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں دراصل سندھ حکومت کی جانب سے خطرہ لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ حلیم کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن ہمیں شبہ ہے کہ سندھ حکومت کے مجرموں نے انہیں اغوا کیا ہے۔
عمران اسمٰعیل نے کہا کہ حلیم کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو سندھ حکومت ذمہ دار ہوگی۔
انہوں نے مزید ٹوئٹس کرتے ہوئے حلیم عادل کی ‘گرفتاری’ کو آمریت کے ہتھکنڈے قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ نہیں بتایا جا رہا کہ حلیم بھائی کہاں ہیں، ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے سچ بولا جسے امپورٹڈ حکومت برداشت نہیں کر سکتی، عدالتوں اور اداروں کو انصاف فراہم کرنا چاہیے۔
پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی راجا اظہر نے ایک بیان میں کہا کہ جب سے نئی حکومت آئی ہے، ہمارے خلاف ظالمانہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بدعنوانی اور تجاوزات کے جھوٹے الزامات کے بعد ہراساں کیا جاتا ہے، ہم سندھ اور پنجاب حکومت کی غنڈہ گردی کو اجازت نہیں دیں گے، حلیم کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے سندھ کے کمزور عوام کے لیے آواز اٹھائی۔
راجا اظہر نے کہا کہ حلیم عادل کو اگر کسی بھی قسم کا نقصان پہنچا تو سندھ اور پنجاب حکومت ذمہ دار ہوگی۔
سندھ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے اپنے مذمتی بیان میں بظاہر شریف اور بھٹو خاندانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دونوں خاندانوں کی سیاست کا مطلب انتقام ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ دونوں خاندانوں نے حلیم کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا اور ملک میں بدعنوانی پر سوال نہ کرنے کا رجحان قائم کیا جا رہا ہے۔
خرم شیر زمان نے چیف جسٹس آف پاکستان سے واقعے کا فوری نوٹس لینے کی اپیل کی اور کہا کہ حمزہ شہباز اور مراد علی شاہ کو ایک ہی کپڑے سے کاٹا گیا ہے، اگر سندھ حکومت تنقید برداشت نہیں کر سکتی تو اسے صوبے کو چھوڑ دینا چاہیے۔