فوج نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اس مطالبے کو مانتے ہوئے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی نگرانی پارلیمانی کمیٹی کرے، امن مذاکرات کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کی منظوری حاصل کرلی۔
رپورٹ کے مطابق اجلاس کے ایک شریک نے میڈیا کو بتایا کہ ’ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ کی مخالفت کے سوا مذاکرات ہونے پر تقریباً سب کا اتفاق رائے تھا‘۔
دریں اثنا وزیر اعظم کے دفتر نے ملاقات کے بارے میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے عمل اور ‘پارلیمانی نگرانی کمیٹی’ کے قیام کی منظوری دی۔
مذاکرات کا یہ عمل جو بڑی حد تک خصوصی طور پر فوج نے مکمل رازداری کے ساتھ چلایا تھا، اسے پارلیمانی حمایت حاصل ہونے کو کالعدم گروپ کے ساتھ متنازع بات چیت کی ایک بڑی توثیق کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
افغان طالبان کے مطالبے پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات گزشتہ سال اکتوبر میں شروع ہوئے تھے لیکن کچھ ہی عرصے بعد سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔
اس عمل کو اپریل میں خفیہ طور پر بحال کیا گیا تھا جب ٹی ٹی پی نے سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے بعد بالآخر جنگ بندی کی گئی، اس وقت کہ جب بات چیت جاری ہے تین ماہ سے جنگ بندی پر عمل ہو رہا ہے۔
قانون سازوں کو فوجی اور انٹیلی جنس حکام نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ’علاقائی اور داخلی امن کو مضبوط بنانے‘ کے لیے کیے جارہے ہیں، سیاسی قیادت کو بتایا گیا کہ یہ تنازعات کو ختم کرنے کا موقع ہے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت چار گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس میں اعلیٰ اختیاراتی پارلیمانی کمیٹی کے 27 ارکان نے شرکت کی جس میں وزیراعظم اور سینیٹ میں اپوزیشن کے اور پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے علاوہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں برائے دفاع کے ارکان کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
تقریباً 62 خصوصی طور پر مدعو کیے گئے افراد کی ایک طویل فہرست بھی تھی جن میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، آزاد کشمیر کے صدر اور افغانستان کے لیے پاکستان سفیر اور دیگر اہم پارلیمنٹیرینز شامل تھے۔
اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم اور کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے، جو مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔
یہ ملاقات 22 جون کو پی ایم ہاؤس میں پارلیمانی رہنماؤں کو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں عسکری قیادت کی جانب سے دی گئی بریفنگ کے بعد ہوئی۔
مذاکرات کی نگرانی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کیا۔
عسکری قیادت نے گزشتہ اجلاس میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے کیے گئے وعدے کے مطابق تسلیم کیا کہ جاری مذاکرات میں ٹی ٹی پی کو کوئی ماورائے آئین رعایت نہیں دی جائے گی اور اس گروپ کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ پارلیمانی کمیٹی کی منظوری کے تابع ہوگا۔
بات چیت میں ٹی ٹی پی نے قبائلی اضلاع سے سیکیورٹی فورسز کے انخلا، ان علاقوں کے 2018 کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو ختم کرنے، اپنے جنگجوؤں کی رہائی اور پہنچے والے نقصانات کے ازالے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس دوران پاکستانی حکام کالعدم تنظیم کو تحلیل کرنے، ہتھیار ڈالنے اور آئین کے احترام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو بتایا گیا کہ قبائلی علاقوں کے انضمام، آئین کے احترام اور گروپ کو غیر مسلح کرنے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، ان باتوں کو حکومت پاکستان کی ’ریڈ لائنز‘ قرار دیا گیا۔
پارلیمانی رہنماؤں کو یہ تاثر دیا گیا کہ ٹی ٹی پی نے ان تینوں معاملات پر اپنا مؤقف نرم کر لیا ہے۔
معاہدہ طے پانے کے بعد ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرنے کا منصوبہ ہے۔
سیاسی رہنماؤں کو بتایا گیا کہ معاہدے کی صورت میں ٹی ٹی پی کے 30 ہزار عسکریت پسندوں اور ان کے خاندان کے افراد کی پاکستان واپسی متوقع ہے۔
کچھ اراکین نے مذاکرات کے نتیجے میں حکومت کو حاصل ہونے فوائد کے بارے میں پوچھا جس پر انہیں بتایا گیا کہ وہ زیادہ تر اقتصادی ہیں۔
سال 2008 اور 2009 کے ناکام امن معاہدوں کے بارے میں یاد دلائے جانے پر عسکری قیادت نے کہا کہ اگر عسکریت پسند معاہدے کے بعد پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو کارروائی کا آپشن موجود ہے۔