سندھ ہائی کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے صوبے میں بلدیاتی انتخابات وقت پر کرانے کا حکم دے دیا۔
جسٹس جنید غفار کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعہ کو بلدیاتی انتخابات روکنے کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر ایم کیوایم کے وکیل ڈاکٹر فروغ نسیم نے دلائل دینا شروع کیے اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا جواب ٹھوس بنیادوں پر مشتمل نہیں، یہ جواب رسمی طور پر جمع کرایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک انتخابی فہرستیں مکمل نہیں لیکن الیکشن کرانا چاہتے ہیں، انتخابی فہرستیں 12 اگست کو مکمل ہوں گی، اس سے پہلے انتخابی عمل شروع ہی نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی ڈھائی کروڑ انٹریز ہونا ہیں، یہ بڑا کام ہے، ان ڈھائی کروڑ افراد کو علم ہی نہیں کہ وہ کس یو سی یا کس وارڈ میں ہیں۔
فروغ نسیم نے کہا کہ انتخابی فہرستیں منصفانہ انتخابات کی بنیاد ہیں، انتخابی فہرستوں کی درستی کے بغیر منصفانہ الیکشن کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔
انہوں نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کیس میں بھی قرار دیا گیا تھا کہ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر انتخابات نہیں کرائے جا سکتے، سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا، حلقہ بندی کی آزاد باڈی ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح انتخابات کرائے گئے تو ہر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے گا کہ ہماری حکومت آئے تو ہم اپنی مرضی سے حلقہ بندیاں کریں گے، ان کی حکومت ہوگی تو وہ اپنی مرضی سے حلقہ بندیاں کریں گے لیکن دراصل حلقہ بندیاں کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ساری غلطیاں الیکشن کمیشن کی طرف سے نہیں ہوتیں بلکہ غلط معلومات کے اندارج کے باعث کچھ خامیاں رہ جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے ان خامیوں کو دور کیا جاتا ہے، ووٹرز کی غیر حتمی لسٹ عام انتخابات 2023 کے لیے تیار کی جارہی ہے جبکہ بلدیاتی انتخابات کی ووٹر لسٹ منجمد کردی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن 2023 میں صاف اور شفاف انتخابات کے لیے تیاری کررہا ہے۔
جسٹس جنید غفار نے کہا کہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ بلدیاتی حلقہ بندی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن الیکشن کمیشن نے بلدیاتی حلقہ بندیوں کی ذمہ داری دوسروں کو دے دی ہے۔
اس پر ای سی پی کے وکیل نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق معاونت حاصل کرسکتا ہے۔
دوران سماعت جماعت اسلامی کے وکیل چوہدری آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے بلدیاتی اداروں کو خود مختار بنانے اور مقامی حکومتوں کے اداروں کو الگ فنڈز جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 140 اے کے تحت قانون سازی کے بعد انتخابات کرنے اور بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کا حکم دیا تھا۔
جسٹس جنید غفار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تو حکم دیا تھا بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے قانون سازی بعد میں انتخابات کا حکم دیا تھا، اس طرح انتخابات کرائے گئے تو بلدیاتی حکومت کمزور ترین تصور کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایک مرتبہ پھر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومت کی مدت ختم ہونے پر 120 روز میں بلدیاتی انتخابات ہونا تھے۔
جسٹس جنید غفار نے استفسار کیا کہ 120 روز میں بلدیاتی انتخابات کیوں نہیں کرائے گئے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ بلدیاتی حلقے کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور خبیر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں، پنجاب میں آرڈیننس اور عدالتوں کے فیصلوں کے باعث تاخیر کا شکار ہیں۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات پرسوں ہونے جارہے ہیں، سندھ میں 27 ہزار امیدوار حصہ لے رہے ہیں، سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں 50 کروڑ روپے کے اخراجات ہو چکے ہیں جبکہ دوسرے مرحلے کے انتخابات کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ووٹر حلقہ بندیوں کو چیلنج کرسکتا ہے، پورے سندھ میں صرف دو فیصد حلقہ بندیوں کے خلاف اعتراضات سامنے آئے ہیں جبکہ کچھ درخواستیں حلقہ بندیوں کے خلاف زیر سماعت بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 5 سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی انتخابات روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا ہے لیکن تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد بلدیاتی انتخابات کی تاریخ مقرر کی گئی تھی، سندھ حکومت کے کچھ اعتراضات مانے بھی گئے ہیں، کسی ایک پارٹی کا ایک بھی امیدوار سامنے نہیں آیا جس نے کہا ہو اس کے حقوق سلب کیے گئے ہوں۔
سندھ حکومت کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے سندھ حکومت نے قانون سازی کے لیے ساری جماعتوں پر مشتمل سلیکٹ کمیٹی بنائی ہے، ایم کیو ایم نے سلیکٹ کمیٹی کے سامنے حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراض اٹھائے ہیں اور سلیکٹ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے انتخابات ملتوی کرائے جائیں
انہوں نے کہا کہ سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات عدالت میں جمع کرادی ہیں لہٰذا قانون سازی مکمل ہونے تک بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جائیں البتہ عدالت جو بھی فیصلہ جاری کرے گی عملدرآمد کیا جائے گا۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد بلدیاتی انتخابات روکنے سے متعلق تمام درخواستیں مسترد کردیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات وقت پر ہوں گے اور تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
فیصلے کے بعد عدالت کے باہر گفتگو کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنز اعجاز انور چوہان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لوکل گورنمنٹ فیز ون کے انتخابات کی تیاری مکمل ہے اور عدالت نے انتخابات روکنے کے حوالے سے تمام درخواستیں کردی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے پرامن ماحول خراب کرنے کی کوشش کی تو سختی سے نمٹا جائے گا۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ میں حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فروری میں فیصلہ دیا تھا، سندھ حکومت نے قانون سازی کیوں نہیں کی، اب جون چل رہا اس وقت تک قانون سازی ہو جاتی لیکن پیپلز پارٹی وفاق میں لوٹے بنانے میں مصروف تھی تو قانون سازی کیسے ہوتی۔
واضح رہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 26 جون کو ہو گا جس میں چار ڈویژن میں انتخابات ہوں گے جبکہ کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں بلدیاتی الیکشن 24جولائی کو ہو گا۔
جماعت اسلامی کے سوا کراچی اور سندھ کی تمام اہم سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس صوبے میں قانون سازی تک بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پہلے ہی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے لیے انتخابی شیڈول جاری کردیا تھا۔
پہلے مرحلے میں سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد اور میرپورخاص ڈویژن کے کُل 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوگا، جس میں 26 جون کو صبح 8 بجے سے شام 5 بجے تک انتخابات ہوں گے اور 30 جون کو نتائج سامنے آئیں گے۔
دوسری جانب سندھ کے 14 اضلاع میں امیدواروں نے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے مہم مزید تیز کردی ہے۔