وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بڑی صنعتوں پر سپر ٹیکس کے نفاذ کے اعلان کے فوری بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی فروخت کا شدید دباؤ دیکھنے میں آیا اور کے ایس ای 100 انڈیکس 2 ہزار پوائنٹس گر گیا۔
کاروبار کے آغاز کے بعد 2 گھنٹے تک مارکیٹ ہموار رہی تاہم 11 بج کر 40 منٹ پر شدید مندی دیکھی گئی اور کے ایس ای 100انڈیکس ایک ہزار 598 پوائنٹس کم ہو کر 41 ہزار 100 کی سطح پر گر گیا۔
دوپہر 12 بجے تک 100 انڈیکس 2 ہزار 53 پوائنٹس یا 4.8 فیصد تک کم ہوگیا تھا۔
پی ایس ایکس کی رول بک کے مطابق جس سطح پر انڈیکس آخری مرتبہ بند ہوا ہو اس سے 5 فیصد اوپر یا نیچے جانے اور 5 منٹ تک وہاں رکنے پر تمام کاروبار ایک مخصوص مدت کے لیے روک دیا جاتا ہے۔
ہیڈ آف ریسرچ انٹر مارکیٹ سیکورٹیز رضا جعفری نے کہا کہ ’ہم نے سنا کہ حکومت تمام بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگارہی ہے جس پر مارکیٹ نے بہت منفی طریقے سے ردِ عمل دیا کیوں کہ یہ اقدام کارپوریٹ سیکٹر کے منافع کو بری طرح متاثر کرے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 10 فیصد سپر ٹیکس کے ساتھ پاکستان کا کارپوریٹ انکم ٹیکس اور دیگر تمام ٹیکس ملا کر 50 فیصد سے زائد ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرمایہ کاروں کا ٹیکس 55 فیصد سے بڑھ جائے گا۔
الفا بیٹا کور کے سی ای او خرم شہزاد نے کہا کہ ٹیکس کی یہ شرح نہ صرف خطے میں بلکہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور پاکستان کی تاریخ میں بھی بلند ترین شرح ٹیکس ہے
قبل ازیں وزیراعظم نے قوم کو بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر اعتماد میں لیا اور بڑی صنعتوں بشمول سیمنٹ، اسٹیل، چینی، تیل اور گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینلز، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹو موبائل، کیمیکلز، مشروبات اور سگریٹ پر 10 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر چیلنج اور مشکل حالات میں غریبوں نے قربانی دی ہے، آج صاحبِ حیثیت افراد کو اپنا حق ادا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیگریٹ کی صنعت کا 60 فیصد سیکٹر ٹیکس ادا کرتا ہے جبکہ 40 فیصد ٹیکس نہیں دیتا یہ ریاست کا کام ہے کہ ٹیکس جمع کرے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس کی کلیکشن کے لیے تمام ڈیجیٹل ٹولز کو بروئے کار لائیں گے، عام شہری کو ٹیکس کے بوجھ سے بچانے کے لیے ٹیکس جمع کیا جائے گا اور ٹیکس کے پیسے عوام پر استعمال کریں گے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں قرض لینا پڑے گا۔