امریکا نے طالبان کی جانب سے باضابطہ درخواست کا انتظار کیے بغیر افغانستان کے لیے امداد بھیجنی شروع کردی ہے۔
رپورٹ کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب افغانستان میں آنے والے طاقتور زلزلے کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی جے بلنکن نے اپنے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ انسانی ہمدردی کے امریکی شراکت دار پہلے ہی ردِ عمل دے رہے ہیں، جس میں متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے طبی ٹیمیں بھیجنا شامل ہے اور ہم ردعمل کے دیگر آپشنز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
طالبان کی حکومت نے ابھی تک واشنگٹن سے مدد کے لیے نہیں کہا لیکن اس نے اس بحران سے نمٹنے کے لیے ’تمام ممالک، بین الاقوامی تنظیموں، افراد اور فاؤنڈیشنز کی فراخدلانہ حمایت‘ کی اپیل کی تھی۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ’افغانستان کے عوا کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ قدرتی آفت پہلے سے ہی سنگین انسانی صورتحال کو بڑھا رہی ہے‘۔
دوسری جانب کانگریس کے ایک نگران ادارے نے محکمہ خارجہ اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا اور ملک کے طالبان حکمرانوں کے ساتھ معاملات کی معلومات کو غیر قانونی طور پر ان سے روکے رکھا۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لیے خصوصی انسپکٹر جنرل (سگار) نے 22 جون کو ایک خط میں اپنی شکایات تحریر کیں جو اس نے امریکی وزیر خارجہ اور یو ایس ایڈ ایڈمنسٹریٹر کو بھیجا تھا۔
امریکی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ واچ ڈاگ نے امریکی کانگریس کے ساتھ بھی یہ خط شیئر کیا، جس نےسگار کو افغانستان میں امریکی فوجی اور اقتصادی امداد کا آڈٹ کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔
سگار کے سربراہ جان سوپکو نے خط کی نقل وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف رون کلین اور آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ کی ڈائریکٹر شالندا ینگ کو بھیجی جبکہ کانگریس میں یہ خط ایوان اور سینیٹ کی آرمڈ سروسز اور امور خارجہ کی کمیٹیوں کے سربراہان اور رینکنگ ممبران میں تقسیم کیا گیا تھا۔
جب محکمہ کی نیوز بریفنگ میں اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ترجمان نیڈ پرائس نے سگار کے الزام کی تردید نہیں کی، اس کے بجائے انہوں نے واچ ڈاگ کی گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں بتایا گیا تھا کہ کس طرح امریکی حمایت یافتہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) طالبان کے دباؤ سے منہدم ہوئیں۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ رپورٹ محکمہ خارجہ یا امریکی حکومت کی متفقہ رائے کی عکاسی نہیں کرتی، امریکی حکومت کے بہت سے حصے بشمول اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ، افغانستان میں گزشتہ سال ہونے والی پیش رفت کے بارے میں منفرد بصیرت رکھتے ہیں جو اس رپورٹ میں درج نہیں کیے گئے۔